جنوبی سوڈان کے صدر نے واضح کیا ہے کہ وہ تیل کی دولت سے مالامال متنازعہ علاقے 'ابیعی' پر قبضہ کے لیے شمالی علاقے کے خلاف فوج کشی نہیں کرینگے۔
جنوبی سوڈان کے صدر سلوا کیر نے جمعرات کے روز صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خطے میں پہلے ہی بہت لڑائی ہوچکی ہے اور ان کے بقول اب یہ وقت امن کا ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے جنوبی سوڈان کے گوریلوں کی جانب سے حملے کے بعد شمالی سوڈان کی افواج نے علاقے کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔
رواں ماہ کے آغاز میں بھی فریقین کے مسلح دستوں کے درمیان علاقے کا کنٹرول سنبھالنے کے لیے پرتشدد جھڑپیں ہوئی تھیں جن میں 14 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ جنوبی اور شمالی سوڈان کی حکومتیں ایک دوسرے پر ابیعی پر قبضہ کے لیے بڑی تعداد میں فوجی دستے روانہ کرنے کے الزامات عائد کرتی آئی ہیں۔
جنوبی سوڈان شمالی حصے سے علیحدہ ہو کر 9 جولائی کو باقاعدہ طور پر ایک آزاد ریاست بننے جا رہا ہے اور ایک ایسے موقع پر علاقے میں جاری کشیدگی خطے میں سلامتی کی صورتِ حال کے حوالے سے کئی خدشات کو جنم دینے کا سبب بن رہی ہے۔
جنوبی سوڈان کے رہائشیوں نے کثرتِ رائے سے رواں سال جنوری میں ہونے والے ایک ریفرنڈم میں سوڈان سے علیحدہ ہونے کی منظوری دی تھی جس کے بعد سے علاقے میں باغی گروہوں کے درمیان ہونے والی لڑائی میں اب تک سینکڑوں افراد مارے جاچکے ہیں۔
مذکورہ ریفرنڈم کا انعقاد عالمی برادری کی کوششوں سے 2005ء میں طے پانے والے ایک امن معاہدے کے تحت کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں جنوبی اور شمالی سوڈان کے درمیان کئی برسوں طویل خانہ جنگی کا خاتمہ ممکن ہوا تھا۔
جنوبی سوڈان کی باقاعدہ علیحدگی سے قبل دونوں خطوں کے حکام کئی اہم متنازعہ امور طے کرنے کے لیے مذاکرات میں مصروف ہیں جن میں تیل کی دولت سے مالامال ابیعی کے علاقہ کی ملکیت کا معاملہ سرِ فہرست ہے۔ تاہم مذاکرات کے اس سلسلے کے اب تک خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوسکے ہیں۔