|
ویب ڈیسک -- جنوبی کوریا میں مارشل لا لگانے پر مواخذے کا سامنا کرنے والے صدر یون سک یول کو حراستی مرکز سے رہا کر دیا گیا ہے۔
عدالت نے صدر یون سک یول کے وارنٹ گرفتاری منسوخ کر دیے تھے۔ پراسیکیوٹرز کی جانب سے اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر نہ کرنے کے بعد صدر کی رہائی ممکن ہوئی ہے۔
جنوبی کوریا میں تین دسمبر کو مختصر دورانیے کے لیے مارشل لا لگانے پر صدر یون کے خلاف مواخذے کی تحریک کامیاب ہو گئی تھی۔اُنہیں بغاوت سمیت دیگر مجرمانہ الزامات کا بھی سامنا ہے۔
صدر کے اس اقدام کے چند گھنٹوں بعد ہی قانون سازوں نے مارشل لا کے خلاف ووٹ دیا تھا جس کے بعد صدر نے مارشل لا منسوخ کر دیا تھا۔
قانون سازوں کو پارلیمان جانے سے روکنے کے لیے پولیس اور سیکیورٹی اہلکاروں کی بھاری نفری تعینات کی گئی تھی۔ لیکن وہ یہ محاصرہ توڑ کر پارلیمان میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
سول سینٹرل ڈسٹرکٹ کورٹ نے صدر کے خلاف فردِ جرم اور تفتیشی عمل کی شفافیت پر سوال اُٹھاتے ہوئے جمعے کو صدر کے وارنٹ گرفتاری منسوخ کر دیے تھے۔
جنوبی کوریا میں تحقیقاتی اداروں نے 15 جنوری کو صدر یون سک یول کو ڈرامائی انداز میں حراست میں لیا تھا۔ انہیں بغاوت کی تحقیقات کے لیے متعدد بار گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ تاہم اداروں کو اس میں کامیابی نہیں مل سکی تھی۔
پندرہ جنوری کو صدر کی رہائش گاہ میں داخل ہونے والے اہلکاروں کی اندر موجود افراد سے مڈبھیڑ بھی ہوئی۔ تاہم یہ شدید نوعیت کی جھڑپیں یا تصادم نہیں تھا۔جس وقت صدر یون کو حراست میں لیا جا رہا تھا وہاں موجود ان کے حامی ان کے حق میں نعرے بازی کر رہے تھے۔
یون نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ وہ ایک غیر قانونی اقدام کو درست کرنے پر سینٹرل ڈسٹرکٹ کورٹ کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔
صدر کے وکلا نے کہا کہ عدالتی فیصلے نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ صدر کی نظربندی کے طریقۂ کار میں نقائص تھے۔ لہٰذا عدالتی فیصلہ قانون کی حکمرانی کی بحالی کے سفر کا آغاز ہے۔
جنوبی کوریا کی آئینی عدالت آنے والے دنوں میں صدر کو اُن کے عہدے سے ہٹانے یا بحال کرنے کا حتمی فیصلہ کرے گی۔ اگر اُنہیں عہدے سے ہٹایا گیا تو 60 روز کے اندر ملک میں نئے صدارتی انتخابات ہوں گے۔
یون، جنوبی کوریا کے پہلے صدر تھے جنہیں عہدے پر رہتے ہوئے گرفتار کیا گیا۔
ہفتے کو یون کے تقریباً 38 ہزار حامیوں نے سول میں ریلی نکالی جب کہ سینکڑوں افراد نے اُن کے خلاف مظاہرہ بھی کیا۔
اس رپورٹ کے لیے بعض معلومات 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔