صومالیہ کے فوجی دستے 'الشباب' کے آخری مضبوط گڑھ اور ساحلی شہر کسمایو میں داخل ہوگئے ہیں جسے شدت پسند تنظیم کے جنگجووں نے دو روز قبل خالی کردیا تھا۔
واشنگٹن —
صومالیہ کے فوجی دستے 'الشباب' کے آخری مضبوط گڑھ اور ساحلی شہر کسمایو میں داخل ہوگئے ہیں جسے شدت پسند تنظیم کے جنگجووں نے دو روز قبل خالی کردیا تھا۔
عینی شاہدین نے 'وائس آف امریکہ' کی صومالی سروس کو بتایا ہے کہ کہ صومالی فوجی دستوں نے پیر کو شہر میں داخل ہونے کے بعد الشباب کے جنگجووں کے سابق ٹھکانوں اور مورچوں کا کنٹرول سنبھالنا شروع کردیا ہے۔
عینی شاہدین کےمطابق شہر کے اکثر رہائشیوں نے فوجی دستوں کی آمد کا خیر مقدم کیا ہے۔'الشباب' کی پسپائی کے بعدشہر میں لوٹ مار کے واقعات بھی پیش آئے ہیں۔
یاد رہے کہ کینیا کے فوجی دستوں – جنہیں افریقی یونین کی افواج کی مدد بھی حاصل تھی – کی جانب سے کسمائو پر جمعے کو بڑا حملے کیے جانے کے بعد القاعدہ سے منسلک شدت پسند تنظیم کے جنگجووں نے ہفتے کو شہر خالی کردیاتھا۔
کسمائو شہر کا ہاتھ سے نکل جانا 'الشباب' کے لیے ایک بڑا نقصان قرار دیا جارہا ہے کیوں کہ شدت پسند تنظیم اس ساحلی شہر کے راستے ہتھیاروں کی درآمد کیا کرتی تھی جب کہ تنظیم کے جنگجو اپنی مالی ضروریات پورا کرنے کے لیے شہر کے باشندوں سے ٹیکس بھی وصول کرتے تھے۔
کسمائو سے پسپائی کے باوجود 'الشباب' نے خبردار کیا ہے کہ وہ نواحی علاقوں سے شہر پر دوبارہ حملہ آور ہوگی۔
کینیائی افواج کے ہاتھوں 'الشباب' کو رواں برس بھاری نقصان اٹھا نا پڑا ہے جو سرحد پار سے ہونے والی اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کے طویل سلسلے کے بعد بالآخر گزشتہ برس صومالیہ میں داخل ہوگئی تھیں۔
کینیا کا الزام ہے کہ ان وارداتوں میں 'الشباب' کے جنگجووں ملوث تھے جن کا دعویٰ ہے کہ وہ صومالیہ کی برائے نام حکو مت کا تختہ الٹ کر اس کی جگہ ملک میں اسلامی نظام نافذ کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
تنظیم ماضی میں صومالیہ کے وسیع جنوبی اور وسطی علاقوں پر قابض رہی ہے لیکن گزشتہ 18 ماہ میں اسے سرکاری اور افریقی یونین کی افواج کے ہاتھوں بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
'الشباب' کو پہنچنے والے حالیہ نقصانات کے بعد یہ امید نظر آنے لگی ہے کہ گزشتہ ماہ منتخب ہونے والے صومالیہ کے نئے صدر اور نومنتخب پارلیمان اس افریقی ملک میں ایک بار پھر استحکام لانے میں کامیاب ہوسکیں گے۔
صومالیہ کی آخری مستحکم حکومت1991ء میں رخصت ہوئی تھی جس کے بعد سے ملک خانہ جنگی اور لاقانونیت کا شکار ہے۔
عینی شاہدین نے 'وائس آف امریکہ' کی صومالی سروس کو بتایا ہے کہ کہ صومالی فوجی دستوں نے پیر کو شہر میں داخل ہونے کے بعد الشباب کے جنگجووں کے سابق ٹھکانوں اور مورچوں کا کنٹرول سنبھالنا شروع کردیا ہے۔
عینی شاہدین کےمطابق شہر کے اکثر رہائشیوں نے فوجی دستوں کی آمد کا خیر مقدم کیا ہے۔'الشباب' کی پسپائی کے بعدشہر میں لوٹ مار کے واقعات بھی پیش آئے ہیں۔
یاد رہے کہ کینیا کے فوجی دستوں – جنہیں افریقی یونین کی افواج کی مدد بھی حاصل تھی – کی جانب سے کسمائو پر جمعے کو بڑا حملے کیے جانے کے بعد القاعدہ سے منسلک شدت پسند تنظیم کے جنگجووں نے ہفتے کو شہر خالی کردیاتھا۔
کسمائو شہر کا ہاتھ سے نکل جانا 'الشباب' کے لیے ایک بڑا نقصان قرار دیا جارہا ہے کیوں کہ شدت پسند تنظیم اس ساحلی شہر کے راستے ہتھیاروں کی درآمد کیا کرتی تھی جب کہ تنظیم کے جنگجو اپنی مالی ضروریات پورا کرنے کے لیے شہر کے باشندوں سے ٹیکس بھی وصول کرتے تھے۔
کسمائو سے پسپائی کے باوجود 'الشباب' نے خبردار کیا ہے کہ وہ نواحی علاقوں سے شہر پر دوبارہ حملہ آور ہوگی۔
کینیائی افواج کے ہاتھوں 'الشباب' کو رواں برس بھاری نقصان اٹھا نا پڑا ہے جو سرحد پار سے ہونے والی اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کے طویل سلسلے کے بعد بالآخر گزشتہ برس صومالیہ میں داخل ہوگئی تھیں۔
کینیا کا الزام ہے کہ ان وارداتوں میں 'الشباب' کے جنگجووں ملوث تھے جن کا دعویٰ ہے کہ وہ صومالیہ کی برائے نام حکو مت کا تختہ الٹ کر اس کی جگہ ملک میں اسلامی نظام نافذ کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
تنظیم ماضی میں صومالیہ کے وسیع جنوبی اور وسطی علاقوں پر قابض رہی ہے لیکن گزشتہ 18 ماہ میں اسے سرکاری اور افریقی یونین کی افواج کے ہاتھوں بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
'الشباب' کو پہنچنے والے حالیہ نقصانات کے بعد یہ امید نظر آنے لگی ہے کہ گزشتہ ماہ منتخب ہونے والے صومالیہ کے نئے صدر اور نومنتخب پارلیمان اس افریقی ملک میں ایک بار پھر استحکام لانے میں کامیاب ہوسکیں گے۔
صومالیہ کی آخری مستحکم حکومت1991ء میں رخصت ہوئی تھی جس کے بعد سے ملک خانہ جنگی اور لاقانونیت کا شکار ہے۔