افغانستان کی سرحد سے ملحقہ پاکستان کے قبائلی ضلعے شمالی وزیرستان کے دو مختلف علاقوں میں سیکیورٹی فورسز اور مبینہ دہشت گردوں کے جھڑپوں میں دونوں جانب سے ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
شمالی وزیرستان کے انتظامی مرکز میران شاہ میں حکام نے بتایا کہ تحصیل دتہ خیل کے علاقے توت نارائی میں سیکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے مابین جھڑپ ہوئی ہے۔
حکام کا کہنا تھا کہ جھڑپ میں 4 سیکیورٹی اہلکار اور 7 دہشت گرد مارے گئے۔
حکام نے بتایا کہ ہلاک ہونے والے اہلکاروں کی لاشیں اور زخمیوں کو دوسلی میں واقع اسپتال منتقل کیا گیا۔
جھڑپ کے بعد سیکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا جب کہ سرچ آپریشن بھی شروع کردیا۔
تحصیل دتہ خیل میں ہونے والے جھڑپ سے چند گھنٹے قبل شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی سب ڈویژن میں سیکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں میں جھڑپ ہوئی تھی۔
مقامی حکام کے مطابق جھڑپ میں ایک اہلکار ہلاک اور ایک زخمی ہوا ہے۔
حکام کا کہنا تھا کہ اس جھڑپ میں ایک دہشت گرد بھی مارا گیا ہے۔
دونوں علاقوں میں ہونے والی جھڑپوں میں ہلاک مبینہ دہشت گردوں کی شناخت کے بارے میں مزید تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔
خیال رہے کہ ان علاقوں میں ذرائع ابلاغ کو آزادانہ رسائی حاصل نہیں ہے جس کی وجہ سے یہاں سے آنے والی معلومات کی فوری طور پر آزادانہ تصدیق نہیں ہو سکتی۔
شمالی وزیرستان میں گزشتہ چند دن میں سیکیورٹی فورسز اور مبینہ عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپوں میں اضافہ ہوا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
تین دن قبل میر علی کے علاقے اسو خیل میں ہونے والی جھڑپ میں ایک مزدور بھی ہلاک ہوا تھا۔ جس کے بعد یوتھ آف وزیرستان نامی تنظیم نے احتجاج بھی کیا تھا۔
دوسری جانب فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے اتوار کو جاری اعلامیے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ شمالی وزیرستان کے دو مختلف علاقوں میں ہونے والی جھڑپوں میں سیکیورٹی فورسز کے صرف دو اہلکار ہلاک ہوئے ہیں جب کہ تین زخمی ہوئے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق دو مختلف علاقوں میں ہونے والی جھڑپوں میں 9 عسکریت پسند ہلاک ہوئے جب کہ ایک عسکریت پسند کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
شمال وزیرستان میں تشدد کے واقعات بالخصوص سیکیورٹی فورسز اور مبینہ دہشت گردوں کے درمیان جھڑپوں کے حوالے سے خیبرپختونخوا کے سابق سیکریٹری داخلہ اور سابق ایڈیشنل انسپکٹر جنرل (اے آئی جی) پولیس سید اختر علی شاہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس کی متعدد وجوہات ہو سکتی ہیں۔
ان کے بقول قطر میں امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کے بعد اسلام آباد اور کابل اس بات پر متفق ہیں کہ افغانستان میں قیام امن میں رکاوٹ ڈالنے والی قوتوں کے خلاف مشترکہ کارروائیاں کی جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ دنوں سرحد پار افغانستان میں بھی داعش کے ایک اہم کمانڈر اسلم فاروقی کو افغان حکومت نے گرفتار کیا ہے جب کہ افغانستان ہی میں ہونے والی کارروائیوں میں سرکردہ پاکستانی عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا گیا ہے۔
سید اختر علی شاہ نے کہا کہ اسی طرح دوحہ معاہدے کے بعد افغانستان میں طالبان کی سرگرمیاں تیز ہو گئی ہیں۔ ان حالات میں سرحد پار شمالی اور جنوبی وزیرستان میں بھی عسکریت پسندوں کی نقل و حرکت میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
سابق اے آئی جی کا کہنا تھا کہ پاکستانی اور افغان طالبان ایک ہی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں لہذا یہ لوگ مشکل وقت میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون بھی کرتے رہتے ہیں۔
سید اختر علی شاہ نے مزید کہا کہ قطر معاہدے کے بعد افغانستان میں طالبان اپنی حیثیت بڑھانے کی کوشش میں ہیں لہذا ان مقاصد کے حصول کے لیے انہیں اپنے پاکستان میں موجود ساتھیوں کی بھی ضرورت ہے۔