پاکستان کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے قرضے کی نئی قسط ملنے کے امکانات روشن ہوئے ہیں لیکن دوسری جانب حکومت شہریوں پر نئے ٹیکسوں کا بوجھ ڈالنے کی تیاری کر رہی ہے۔
مشیرِ خزانہ شوکت ترین نے اشارہ دیا ہے کہ نئی قانون سازی کے تحت بعض سیکٹرز میں ٹیکس سے استثنیٰ کو ختم کیا جائے گا۔
جمعے کو کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شوکت ترین نے کہا کہ آئی ایم ایف سے قرض کی نئی قسط کا حصول یقینی بنانے کے لیے پیشگی اقدامات پر عمل درآمد کیا جارہا ہے اور اس سلسلے میں حکومت جلد پارلیمان سے رجوع کرے گی۔
شوکت ترین کے مطابق آئی ایم ایف کی جانب سے ملک میں کئی سیکٹرز میں ٹیکس استثنیٰ ختم کرنے کے مطالبے میں کسی حد تک وزن ہے۔ ان کے بقول ٹیکس استثنیٰ ختم کر کے اشیا پر سیلز ٹیکس لاگو کیا جانا ضروری ہے تاکہ ٹیکس کا نظام خراب نہ ہو اور اگر وہ ٹیکس نیٹ میں آنے والی اشیا انتہائی غریب طبقہ استعمال کرتا ہے تو انہیں ٹارگٹڈ سبسڈی دی جائے گی۔
ماہرینِ معیشت کا کہنا ہے کہ ٹیکس کے استثنیٰ کے خاتمے کی صورت میں مہنگائی کے نئے طوفان کا خدشہ ہے جس سے آئندہ دنوں میں پیٹرولیم مصنوعات، بجلی کی قیمت اور کھاد کی قیمتوں میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔
SEE ALSO: آئی ایم ایف سے معاہدہ بحال، بجلی اور پیٹرول کی قیمت میں مزید اضافے کا عندیہمعاشی امور کے ماہر ڈاکٹر اشفاق احمد کہتے ہیں حکومت منی بجٹ کے ذریعے تقریباً 800 ارب روپے کی آمدن پیدا کرنے کی خواہش مند ہے اور یہ رقم پیٹرول کی قیمت پر لگ بھگ ساڑھے تین سو ارب لیوی ٹیکس نافذ کرنے، تقریباً 300 ارب روپے کے ٹیکس استثنیٰ ختم کرنے سے حاصل ہو گی۔ اس کے علاوہ 200 ارب روپے ترقیاتی اخراجات سے رقم بچائی جائے گی۔
ان کے بقول حکومت کو تین ہزار ارب روپے کے لگ بھگ رقم قرضے اور سود کی ادائیگی میں خرچ کرنا ہے جب کہ 1600 ارب روپے دفاعی بجٹ کے لیے مختص ہیں جس میں کمی کے کوئی آثار نہیں۔
سابق وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل کے خیال میں ٹیکس استثنیٰ ختم کرنے اور پیٹرولیم پر لیوی ٹیکس کے بھی نفاذ سے عام آدمی کے بجٹ پر منفی اثر پڑے گا۔ ان کے بقول کھانے پینے کی اشیا ہی بچی تھیں جن پر سیلز ٹیکس نافذ نہیں تھا اب حکومت اس پر بھی ٹیکس لگانے جا رہی ہے۔
واضح رہے کہ آئی ایم ایف نے حال ہی میں پاکستان کو چھ ارب ڈالر قرضے کے پروگرام کے تحت ایک ارب ڈالر قرضے کی نئی قسط جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
آئی ایم ایف نے پاکستانی حکام کو تجاویز پر پیشگی اقدامات اٹھانے کا کہا ہے۔ جس کے تحت پیٹرولیم مصنوعات پر لیوی ڈیوٹی عائد کرنے، ترقیاتی منصوبوں پر ہونے والے اخراجات میں 200 ارب روپے کی کمی لانے سمیت مختلف سیکٹرز میں 'ٹریک اینڈ ٹریس' سسٹم نافذ کرنے کے اقدامات شامل ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
گزشتہ ماہ حکومت نے پہلے ہی بجلی کی قیمت میں گزشتہ ماہ ایک روپے 68 پیسے فی یونٹ اضافہ اور روپے کی قدر میں بھی گراوٹ کرنا پڑی ہے۔
معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر اشفاق احمد کہتے ہیں ٹیکس چھوٹ کے خاتمے سے یقینی طور پر اس کا اثر مہنگائی بڑھنے کی صورت میں نکلے گا۔ ان کے بقول ایسا کرنے سے غذائی اشیا مہنگی ہونے، ایندھن کی قیمت میں اضافے کے باعث ٹرانسپورٹیشن اخراجات بڑھنے کا سبب بنے گا۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ دو برسوں کے دوران پاکستان میں غذائی اشیا کی قیمتوں میں دس فی صد سے زائد اضافہ ہوا ہے اور حکومت کو گردشی قرضوں کا حجم کم کرنے کے لیے آئندہ برس بجلی کی قیمتیں مزید بڑھانی پڑیں گی۔
ادھر حکومت کا کہنا ہے کہ اس وقت پیٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس کی شرح صفر ہے۔ اور اگر عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں نمایاں کمی ہوجاتی ہے تو لیوی ٹیکس عائد کرنے کے بعد اس کا فائدہ عوام کو پہنچایا جائے گا۔
یاد رہے کہ اس وقت پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں پہلے ہی ملک کی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں۔
مفتاح اسماعیل کہتے ہیں قرضوں کی شرح جی ڈی پی کے مقابلے میں مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔ قرضوں اور دفاع کو چھوڑ کر اس وقت وفاقی حکومت کے اپنے اخراجات ملک کی مجموعی قومی آمدن کا پانچ اعشاریہ دو فی صد یعنی 2200 ارب روپے سے زیادہ ہو چکا ہے جسے کم کرنے کے لیے کوئی حکمتِ عملی نہیں۔