سینیٹ اراکین کا شمالی وزیر ستان جانے کا فیصلہ

فائل فوٹو

پاکستان کے ایوان بالا سینیٹ کے اراکین نے شمالی وزیرستان کے دورے کا فیصلہ کیا ہے، جس کا مقصد وہاں کے عوام کو درپیش مسائل کا جائزہ لینا ہے۔

سینیٹ کی خصوصی کمیٹی کے سربراہ بیرسٹر محمد علی سیف نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ قومی یکجہتی کے لئے قائم اس خصوصی کمیٹی کا مقصد پختونوں کو درپیش مسائل کو حل کرنا ہے۔

کمیٹی نے چند روز قبل شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے سرکردہ قبائلی رہنماؤں کے ساتھ ملاقات میں مختلف مسائل پر تبادلہ خیال کیا تھا۔ کمیٹی نے اس سے قبل پشتون تحفظ تحریک کے رہنماؤں سے بھی ملاقات کی تھی۔

خصوصی کمیٹی میں شامل سینیٹر ستارہ ایاز نے بتایا کہ قومی جرگہ میں شامل رہنماؤں کے مطالبات زیادہ تر وہی تھے جو پی ٹی ایم کے رہنماؤں نے پیش کئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ شمالی وزیرستان جاکر موقع پر ہی لوگوں کے مسائل اور مشکلات سنی جائیں۔

ستارہ ایاز نے کہا کہ 20 جولائی کو صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر ہونے والے انتخابات کے بعد کمیٹی میں شامل ممبران شمالی وزیرستان جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ قومی جرگہ ممبران کے ساتھ بات چیت میں معلوم ہوا کہ اب شمالی وزیرستان سمیت زیادہ تر قبائلی علاقوں کے لوگ تمام تر انتظامی احتیارات سول انتظامیہ کے سپرد کرنے کے حق میں ہیں۔

ستارہ ایاز کا کہنا تھا کہ 12 جولائی کے اجلاس میں پی ٹی ایم سے متعلق کوئی بات نہیں ہوئی۔ ان کے بقول پی ٹی ایم کو بھی مطالبات تحریری طور پر پیش کرنے کا کہا گیا تھا اب جرگے کو بھی یہی تجویز دی گئی ہے۔

سینیٹ کی خصوصی کمیٹی اور شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے قبائلی عمائدین کے مابین اتفاق ہوا ہے کہ مقامی لوگوں کو درپیش مشکلات اور مسائل کے حل کے لیے مذاکرات جاری رہیں گے۔

سینیٹ کمیٹی اور پی ٹی ایم

خصوصی کمیٹی نے پشتون تحفظ تحریک کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ چند مہینے قبل شروع کیا تھا اور اس سلسلے میں تحریک کے سربراہ منظور پشتین، علی وزیر، محسن داوڑ سمیت تحریک کے سرگرم رہنماؤں نے اراکین پارلیمینٹ سے ملاقات بھی کی تھی۔

اس ملاقات میں پی ٹی ایم نے شمالی وزیرستان میں پشتونوں کو درپیش مشکلات سے متعلق اراکین پارلیمان کو آگاہ کیا تھا۔ تاہم حالیہ ملاقات میں پی ٹی ایم کے کسی رکن کو شرکت کی دعوت نہیں دی گئی۔

پی ٹی ایم کا وفد پیپلزپارٹی کی قیادت سے ملاقات کر رہا ہے۔(فائل فوٹو)

سینیٹر محمد علی سیف کا کہنا تھا کہ پی ٹی ایم کے زیادہ تر رہنما گرفتار ہیں اور دیگر گرفتاری کے خوف سے اجلاس میں شریک نہیں ہو سکے۔ تاہم پی ٹی ایم کے ساتھ ان کے رابطے قائم ہیں۔

ان کے بقول علی وزیر اور محسن داوڑ کے خلاف عدالتی کارروائی چل رہی ہے لہذٰا کمیٹی ایک قانونی عمل میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ جبکہ ان اراکین قومی اسمبلی کے پروڈکش آرڈر جاری کرنے کا اختیار بھی سینیٹ کے پاس نہیں ہے۔

شمالی وزیرستان کے قومی جرگہ میں شامل خالد خان داوڑ کا کہنا تھا کہ کمیٹی کا مقصد لوگوں کے مسائل کو سننا اور حل کرنا ہے۔

انہوں نے پی ٹی ایم کا نام لیے بغیر کہا کہ حکومت اور دیگر تحریکیں اب فریق بن چکی ہیں لہذٰا سینیٹ نے قبائلی عمائدین کا بلا کر ان کے مسائل سمجھنے کی کوشش کی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں خالد خان نے کہا کہ ان کے اور پی ٹی ایم کے مطالبات میں تھوڑا فرق ہے، پی ٹی ایم ایک سیاسی تحریک ہے لہذٰا ان کے مطالبات سیاسی نوعیت کے ہیں۔ جبکہ قبائلی رہنماؤں کے پیش کردہ مطالبات عوامی ہیں۔

سینیٹ کی خصوصی کمیٹی کے شمالی وزیرستان جانے کے اس فیصلے کے بارے میں صوبائی یا مرکزی حکومت کی جانب سے کسی قسم کا ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔

گزشتہ ایک سال سے سابق قبائلی علاقوں میں سیاسی سرگرمیاں بحال ہیں اور سیاسی رہنماؤں کی آمدورفت کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ تاہم چند روز قبل پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو سیکورٹی وجوہات کی بناء پر باجوڑ اور جنوبی وزیرستان میں جلسے کرنے سے روک دیا گیا تھا۔

شمالی وزیرستان میں اس وقت حالات کشیدہ ہو گئے تھے جب چند ماہ قبل خڑکمر کے علاقے میں فوج اور پی ٹی ایم کارکنوں کے درمیان تصادم کے نتیجہ میں دس سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

واقعے کے بعد علاقے میں کرفیو نافذ کر دیا گیا تھا، جس کے باعث مقامی آبادی کو شدید مشکلات کا سامنا تھا۔

فوج کے ساتھ جھڑپ کے الزام میں اراکین قومی اسمبلی علی وزیر اور محسن داوڑ کے خلاف مقدمات درج کر کے انھیں گرفتار کر لیا گیا تھا۔