ضلع کرم: تین روز میں 82 ہلاکتیں، صوبائی حکومت کی کوشش سے جنگ بندی پر اتفاق

فائل فوٹو۔

  • جمعرات سے جاری جھڑپوں میں کم از کم 82 افراد ہلاک اور 156 سے زائد زخمی ہوگئے ہیں۔
  • کرم ایجنسی میں موبائل سروس اور مرکزی شاہراہیں بند ہیں۔
  • ہفتے کی شب تک جاری رہنے والی جھڑپوں کے سبب 300 خاندانوں کو نقل مکانی کرنا پڑی ہے۔
  • صوبائی حکومت کے ایک وفد نے اہلِ تشیع کمیونٹی سے ملاقات کی ہے۔

ویب ڈیسک — خیبرپختونخوا حکومت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ قبائلی ضلع کرم میں فریقین نے سات روز کے لیے جنگ بندی پر اتفاق کرلیا ہے۔

اتوار کو ضلع کرم میں جاری کشیدہ صورتِ حال کا جائزہ لینے اور فریقین میں بات چیت کے لیے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کے تشکیل کردہ حکومتی وفد یا جرگہ ضلع کرم کا دو روزہ دورہ مکمل کرنے کے بعد پشاور پہنچ گیا ہے۔

وفد کے دورے کے بارے میں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر سیف نے ایک بیان میں کہا کہ فریقین سات روزہ سیز فائر پر متفق ہوگئے ہیں اور ساتھ ہی فریقین نے یرغمال افراد کی واپسی اور میتوں کو حوالے کرنے پر بھی اتفاق کیا ہے۔

بیرسٹر سیف نے کہا کہ حکومتی وفد نے دورے کے پہلے روز اہلِ تشیع کے اور دوسرے روز اہلِ سنت کے مشران سے ملاقاتیں کیں۔

ہفتے کو ضلع کرم میں امن و امان کی صورتِ حال کا جائزہ لینے کے لیے پاڑہ چنار آنے والے صوبائی حکام کے وفد کے ہیلی کاپٹر پر فائرنگ بھی ہوئی تھی البتہ اس واقعے میں کوئی نقصان نہیں ہوا۔

قبل ازیں وفد کی سربراہی کرنے والے صوبائی وزیرِ قانون آفتاب عالم نے کہا ہے کہ ہماری ترجیح فریقین میں جنگ بندی کرانا ہے۔ ایک بار اس میں کامیابی مل جائے تو دیگر امور پر بھی زیرِ بحث لائے جائیں گے۔

تین روز سے پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا کے ضلعے کرم میں جاری فرقہ ورانہ جھڑپوں میں کم از کم 82 افراد ہلاک اور 156 سے زائد افراد زخمی ہوچکے ہیں۔

خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے بات کرتے ہوئے اتوار کو مقامی انتظامیہ کے عہدے داران نے نام نے ظاہر نہ کرنے کی شرط پر تصدیق کی ہے کہ 21، 22 اور 23 نومبر کو قافلے پر حملے اور بعد ازاں ہونے والی مسلح جھڑپوں میں کم از کم 82 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

ایک عہدے دار نے بتایا کہ ہلاک ہونے والے میں 16 افراد سنی ہیں جب کہ 66 کا تعلق شیعہ کمیونٹی سے ہے۔

SEE ALSO: کرم میں فائرنگ سے ہلاکتیں؛ کیا یہ صرف زمین کا تنازع ہے؟

مقامی عہدے دار کے مطابق کرم میں موبائل نیٹ ورک معطل ہے جب کہ مرکزی شاہراہوں پر ٹریفک کی آمد و رفت بھی بند ہے۔

افغان سرحد سے ملحقہ خیبرپختونخوا کے قبائلی ضلع کرم 2018 میں صوبے میں ضم ہونے سے قبل فاٹا کہلانے والے وفاق کے زیرِ انتظام علاقوں میں شامل تھا۔

کرم میں بڑی تعداد میں شیعہ کمیونٹی آباد ہے۔ ماضی میں بھی یہاں فرقہ ورانہ جھڑپیں ہوتی رہی ہیں۔

پولیس اور سیکیورٹی اداروں کو ماضی میں بھی کرم میں فرقہ ورانہ کشیدگی اور تصادم کے واقعات پر قابو پانے میں مشکلات کا سامنا رہا ہے۔

حالیہ جھڑپوں کا آغاز جمعرات کو پولیس کی حفاظت میں جانے والے شیعہ کمیونٹی کے ایک قافلے پر حملے کے بعد ہوا جس میں 43 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

ادھر جمعرات کو ہونے والے حملے کے اگلے روز لوئر کرم میں بگن کے علاقے پر مسلح افراد نے حملہ کردیا تھا جس میں مقامی ذرائع کے مطابق 400 سے زائد مکان اور دکانیں نذر آتش کردی گئیں۔

ہفتے کی شب تک جاری رہنے والی جھڑپوں میں 300 سے زائد خاندان علاقے سے نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔

SEE ALSO: ضلع کرم: فرقہ ورانہ فسادات میں مزید 32 افراد ہلاک، پاڑا چنار آنے والے سرکاری ہیلی کاپٹر پر فائرنگ

مقامی ذرائع کے مطابق لوئرکرم بگن پر مسلح لشکر کشی کے نتیجے میں 23 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ بعد ازاں بگن پر حملے میں مبینہ طور پر لاپتا ہونے والے افراد کے معاملے پر پہنچنے والے قومی جرگے کو بھی مارٹر گولے سے حملے کا نشانہ بنایا گیا ہے جس میں تین افراد ہلاک ہونے کی اطلاعات ہیں۔

حکام کے مطابق کرم میں موبائل نیٹ ورک معطل ہے اور مرکزی شاہراہوں پر ٹریفک کی آمد و رفت رکی ہوئی ہے۔

گزشتہ ماہ کرم میں ہونے والی فرقہ ورانہ جھڑپوں میں تین خواتین اور دو بچوں سمیت 16 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

اس سے قبل جولائی اور ستمبر میں ہونے والی کشیدگی کے دوران درجنوں ہلاکتوں کے بعد قبائلی جرگے نے جنگ بندی کرائی تھی۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق جولائی سے اکتوبر کے دوران فرقہ ورانہ جھڑپوں کے نتیجے میں 79 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

کرم میں ہونے والے پرتشدد واقعات پر جمعے کو کراچی اور لاہور سمیت ملک کے مختلف حصوں میں احتجاج کیا گیا۔

اس رپورٹ میں شامل زیادہ تر معلومات خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے لی گئی ہیں۔