شام میں حکومت اور باغیوں کے درمیان جاری لڑائی کے باوجود دمشق کے نواحی علاقے درایہ کے چند طلبا نے ایک تباہ حال عمارت کے تہہ خانے میں ایک لائبریری قائم کی جہاں لگ بھگ 1400 کتب موجود تھیں۔
یہ لائبریری ان رہائشیوں کے شوق کی تسکین کرتی رہی جو جنگ سے تنگ آ کر معمول کی زندگی گزارنے کے خواہش مند تھے۔
ایک برطانوی صحافی مائیک تھامسن نے ان نوجواں طلبا کی لائبریری قائم کرنے تک کی کاوشوں کو کتابی شکل دی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح 2012 سے 2016 کے درمیان بمباری اور گولیوں کی گھن گرج کے باوجود ان باحوصلہ طلبا نے کھنڈر میں تبدیل ہونے والی عمارت کے تہہ خانے میں لائبریری کی بنیاد رکھی تھی۔
مائیک تھامسن نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ درایہ کا علاقہ زیادہ تر شامی فوج کی مسلسل فائرنگ کی زد میں رہتا تھا۔ اس علاقے کی مکمل ناکہ بندی تھی۔
ایک معاہدے کے نتیجے میں 2016 میں اس علاقے کی ناکہ بندی ختم ہوئی، جس کے بعد یہ علاقہ شامی افواج کے زیر اثر آ گیا۔
مائیک تھامسن نے بتایا کہ "یہ طلبا شدید فائرنگ کے باوجود کتابیں جمع کرتے، یہ اپنے ساتھ سیڑھیاں لاتے، کھڑکیوں کے راستے نیچے اترتے اور زیادہ تر کام رات کے وقت سرانجام دیتے تھے۔"
شام کے دارلحکومت دمشق سے آٹھ کلو میٹر دور درایہ کے اس علاقے میں 2011 میں شامی حکومت کے خلاف سب سے پہلے مظاہرے شروع ہوئے تھے، جس کے بعد سے یہ علاقہ باغیوں کا مضبوط گڑھ سمجھا جانے لگا۔
اس علاقے میں 2012 سے 2016 کے دوران روس کی حمایت یافتہ شامی افواج اور باغیوں کے درمیان خوفناک جھڑپیں ہوتی رہی ہیں، جس کے بعد یہ علاقہ کھنڈرات میں تبدیل ہو گیا۔ مائیک تھامسن کے مطابق، جابجا تباہ شدہ عمارتیں اور ویران علاقے کے درمیان ان نوجوانوں نے علم کی شمع روشن کرنے کی کوشش کی، جو بلاشبہ قابل ستائش تھی۔
یہ طلبا کتابیں کیسے جمع کرتے تھے؟
اس علاقے میں خوراک، ادویات اور پانی کی ترسیل بند تھی۔ اس وقت طلبا کے ایک گروہ نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ زیر زمین لائبریری بنا کر وہاں کتابیں رکھیں گے۔
چند مہینوں کی کوشش سے ان طلبا نے 1400 کتابیں جمع کر لیں جن میں سے متعدد کتابیں درایہ کی سرکاری لائبریری سے جمع کی گئیں، جہاں 2013 کی بمباری کے بعد آگ لگ گئی تھی۔
مائیک تھامسن کے مطابق یہ لائبریری ایک تعلیمی مرکز بن گئی۔ "لوگ یہاں جمع ہوتے، مختلف موضوعات پر بحث کرتے، کتابوں کی کمی کے باعث بیک وقت بہت سے لوگوں کی ایک ہی کتاب تک رسائی ممکن نہیں رہتی تھی۔"
کتب خانے میں مختلف موضوعات پر مشتمل کتابیں رکھی گئی تھیں، جن میں عالمی ادب، تاریخ، سائنس اور مذہب سے متعلقہ موضوعات بھی شامل تھے۔
'روح کو بھی غذا کی ضرورت ہوتی ہے'
جان ہتھیلی پر رکھ کر لائبریری قائم کرنے والے رضاکاروں میں شامل عبدالباسط سے پوچھا گیا کہ جس علاقے میں خوراک کی کمی ہے ان کی پہلی ترجیح غذا کی تلاش کیوں نہیں ہے؟ جس پر عبدالباسط نے جواب دیا کہ روح کو بھی غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔ "جس طرح ہمارے جسم کو خوراک کی ضرورت ہے اسی طرح ہماری روح کو بھی غذا درکار ہوتی ہے، جو یہ کتابیں فراہم کرتی ہیں۔"
سنہ 2016 میں علاقے کی ناکہ بندی حکومتی افواج اور باغیوں کے درمیان ایک معاہدے کے نتیجے میں ختم ہو گئی، جس کے بعد شامی افواج علاقے میں داخل ہو گئیں۔
معاہدے کے نتیجے میں شامی حکومت نے 700 باغیوں اور لگ بھگ چار ہزار شہریوں کو علاقہ چھوڑنے کی اجازت دے دی جن میں عبدالباسط اور اس کے ساتھی بھی شامل تھے، جنہیں یہ کتب خانہ چھوڑ کر جانا پڑا۔
ان کے بقول، انہوں نے لائبریری کو شامی افواج کی نظروں میں آنے سے بچانے کے لیے داخلی راستے پر کنکریٹ رکھنے کی کوشش کی۔ تاہم، یہ عارضی لائبریری شامی فوج کی نظروں میں آ گئی۔
عبدالباسط کو معلوم نہیں کہ اس لائبریری کے ساتھ شامی افواج نے کیا کیا؟ کیوں کہ تین سال گزر جانے کے باوجود وہ اس علاقے میں دوبارہ نہیں جا سکے ؟