سائنسدان دنیا کی قدیم ترین برف تک پہنچ گئے، ڈرلنگ میں چار سال لگے

ماہرین انٹارکٹک کے علاقے لٹل ڈوم سی میں ایک سائنسی تحقیقی مرکز میں بنی غار کے اندر زمین کی گہرائی سے نکالی جانے والی برف کے ٹکڑوں کو محفوظ کر رہے ہیں۔ 7 جنوری 2025

  • فضا میں موجود گیسیں گلیشیئرز پر اپنا نقش چھوڑتی ہیں۔
  • برف کی قدیم پرتیں، فضا میں گیسوں کی مقدار سے متعلق اپنے عہد کی معلومات فراہم کرتی ہیں۔
  • انٹارکٹک میں دو میل کی ڈرلنگ سے سائنس دان 12 لاکھ سال پرانی برف کی پرت تک پہنچے۔
  • تجزیے سے ظاہر ہوا ہے کہ کاربن گیسوں کی آج کی سطح 12 لاکھ سال پہلے کے مقابلے میں 50 فی صد زیادہ ہے۔
  • سائنس دانوں کو آرکٹک میں قدیم برف تک پہنچنے کے لیے منفی 35 ڈگری فارن ہائیٹ درجہ حرارت میں چار سال تک ڈرلنگ کرنی پڑی۔

سائنس دانوں کی ایک بین الاقوامی ٹیم نے جمعرات کو بتایا کہ انہوں نے کرہ ارض پر برف کی قدیم ترین تہہ تک پہنچنے کے لیے برفانی خطے انٹارکٹک میں تقریباً دو میل کی گہرائی تک ڈرلنگ مکمل کر لی ہے۔

برف کی تہہ درتہہ پرتوں میں ڈرلنگ کرتے ہوئے برف کی قدیم ترین تہہ تک پہنچنے کے لیے ماہرین کو 2.8 کلومیٹر تک نیچے جانا پڑا، جس پر چار سال کا عرصہ لگا۔

قدیم برف کے تجزیے سے معلوم ہوا ہے کہ وہ کم از کم 12 لاکھ سال پرانی ہے۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ قدیم ترین برف کے تجزیے سے یہ جاننے میں مدد ملے گی کہ اس دور میں زمین کا ماحول اور آب و ہوا کیسی تھی۔ ان معلومات سے ماہرین بہتر طور پر یہ اندازہ لگا سکیں گے کہ زمین کے ماحولیاتی نظام میں کاربن گیسیں کب شامل ہونا شروع ہوئیں اور موسموں میں کس طرح تبدیلیاں آئیں۔

قدیم برف کا تجزیہ سائنس دانوں کو کرہ ارض کے برفانی ادوار کے متعلق بھی جاننے میں مدد فراہم کرے گا۔

سائنس دانوں اور ماہرین کی ایک ٹیم نے شمالی انٹارکٹ کے علاقے لٹل ڈوم سی میں دو میل کی ڈرلنگ کر کے 12 لاکھ سال پرانی برف کے ٹکڑے نکالے۔ تصویر میں ڈرلنگ کے آلات دکھائی دے رہے ہیں۔ 7 جنوری 2025

گزشتہ چند عشروں سے زمین کا درجہ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے جس سے نئے مسائل اور نئی مشکلات جنم لے رہی ہیں۔ لیکن لمبی مدت کے دوران زمین کا درجہ حرارت اور اس کے موسم ایک سے نہیں رہتے۔ آج سے لگ بھگ 12000 سال قبل زمین پر ایک طویل برفانی دور کا اختتام ہوا تھا اور درجہ حرارت بڑھنے سے موسم تبدیل ہونا شروع ہوئے تھے۔

سائنس دانوں کا اندازہ ہے کہ زمین اپنی پیدائش کے بعد سے کم ازکم پانچ برفانی ادوار سے گزر چکی ہے اور ہر برفانی عہد لگ بھگ ایک لاکھ سال تک جاری رہا تھا۔

برفانی دور کیسے شروع ہوتاہے؟

زمین سورج کے گرد ایک خاص زوایے پر گردش کرتی ہے جس کے نتیجے میں وسطی علاقوں کی نسبت قطبین پر نسبتاً کم حرارت پہنچتی ہے جس سے وہاں پانی جم کر برف بن جاتا ہے۔

شمالی انٹارکٹک میں لٹل ڈوم سی کے علاقے میں سائنس دان قدیم برف کے ٹکڑے حاصل کرنے2025 کے لیے ڈرلنگ کر رہے ہیں۔ 7 جنوری

ہزاورں برسوں کے دوران زمین کی گردش کا زوایہ تبدیل ہو جاتا ہے جس سے زمین پر پہنچنے والی حرارت مزید کم ہو جاتی ہے اور قطبین کے برفانی علاقے پھیلنے لگتے ہیں۔ برف چونکہ سورج کی حرارت کو پلٹ دیتی ہے، اس لیے برف کی سطح بڑھنے سے زمین مزید ٹھنڈی ہونے لگتی ہے اور برفانی دور شروع ہو جاتا ہے۔

برفانی دور کیسے ختم ہوتا ہے؟

برفانی دور کے خاتمے کا تعلق بھی سورج کے گرد زمین کی گردش کے زوایے سے ہے۔ ہزاروں برسوں کے دوران جب یہ زوایہ بدل کر سابقہ درجے پر چلا جاتا ہے تو سورج کی زیادہ حرارت زمین پر پہنچنے سے برف پگھلنا اور موسم بدلنا شروع ہو جاتے ہیں۔

برفانی دور کا زندگی پر کیا اثر ہوتا ہے؟

زمین پر زندگی نباتات اور حیوانات کی شکل میں کروڑوں برسوں سے موجود ہے اور برفانی ادوار میں بھی وہ اپنے اندر لچک پیدا کر کے اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ہے۔

آرکٹک میں برف کی چٹانوں کا ایک منظر۔ فائل فوٹو

انسان کا ارتقا تقریباً دو لاکھ سال پہلے اپنی ابتدائی شکل میں ہوا تھا اور اس طرح انسان بھی ایک برفانی دور گزار چکا ہے۔

اگلا برفانی دور کب ہو گا؟

سائنس دانوں کا اندازہ ہے کہ اگلے برفانی دور کے آغاز میں ابھی 50 ہزار سے ایک لاکھ سال باقی ہیں۔ کاربن گیسوں کا بڑھتا ہوا اخراج برفانی عہد کی آمد میں تاخیر کا باعث بن سکتا ہے۔

12 لاکھ سال پرانی برف کیا بتاتی ہے؟

انٹارکٹک سے نکالی جانے والی 12 لاکھ سال پرانی برف کی پرت سائنس دانوں کو یہ جاننے میں مدد دے رہی ہے کہ برفانی دور کے چکر کس طرح تبدیل ہوئے اور کس طرح کاربن گیسوں کے اخراج نے زمین پر آب و ہوا کو تبدیل کیا۔

کرہ ارض کے گرم ہونے سے ہزاروں سال پرانے گلیشیئرز میں ٹوٹ پھوٹ ہو رہی ہے۔ فائل فوٹو

گلیشیئرز علوم کے ایک اطالوی ماہر کارلو باربنٹی کہتے ہیں کہ برف کی اس قدیم پرت سے ہم یہ جان سکیں گے کہ گرین ہاؤس گیسوں، کیمیکلز اور دھول سے ہمارے ماحول میں کیا تبدیلیاں آئی ہیں۔

باربنٹی کا تعلق اٹلی کی نیشنل ریسرچ کونسل کے قطبی سائنس کے انسٹی ٹیوٹ سے ہے۔ ماضی میں ان کی ٹیم برفانی تہوں کی کھدائی کر کے 8 لاکھ سال پرانی برف کے نمونے حاصل کر چکی ہے۔ اس بار ان کی ٹیم نے تقریباً 2.8 کلومیٹر کی گہرائی تک ڈرلنگ کی تھی۔

آرکٹک میں ڈرلنگ کرنے والی اس ٹیم میں 16 سائنس دان اور ماہرین شامل تھے۔انہوں نے چار سال تک گرمیوں کے موسم میں لگ بھگ منفی 35 ڈگری فارن ہائیٹ کے درجہ حرارت میں اپنا مشن مکمل کرنے کے لیے کام کیا۔

اس ٹیم میں شامل ایک سائنس دان فیڈیریکو سکوٹو نے بتایا کہ چٹان کی تہہ تک پہنچنا ہمارے لیے ایک عظیم لمحہ تھا۔

زمین کے گرم ہونے سے انٹارکٹک میں موجود قدیم کلیشیئرز پگھل رہے ہیں۔ فائل فوٹو

ان کا مزید کہنا تھا کہ جب گہرائی سے نکالے جانے والے برف کے ٹکڑوں کا سائنسی تجزیہ کیا گیا تو پتہ چلا کہ وہ 12 لاکھ سال پرانے ہیں۔

باربنٹی اور سکوٹو دونوں نے بتایا کہ ہم نے قدیم برف کے تجزیے میں یہ جاننے کی کوشش کی کہ اس وقت فضا میں کاربن ڈائی اکسائیڈ اور میتھین گیسوں کی سطح کیا تھی۔

8 لاکھ سال پرانی برف میں یہ سطح صنعتی دور کے آغازسے قبل کے مقابلے میں کم تھی۔جب کہ 8 لاکھ سال پہلے زمین ایک گرم دور سے گزر رہی تھی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت ہماری فضا میں کاربن گیسوں کا ارتکاز 8 لاکھ سال پہلے کے مقابلے میں 50 فی صد زیادہ ہے۔

اس پراجیکٹ کے لیے یورپی یونین اور یورپی براعظم کے ممالک نے مالی تعاون فراہم کیا۔

(اس آرٹیکل کے لیے کچھ معلومات اے پی سے لی گئیں ہیں)