نارتھ کراچی کا ’محمد شاہ قبرستان‘ بالآخر منگل کی صبح طلوع آفتاب سے بھی قبل مچھ جیل میں پھانسی کی سزا پاکر ملک عدم جانے والے صولت مرزا کی آخری منزل ثابت ہوا۔
یہ قبرستان ان کی پرانی رہائش گاہ نارتھ ناظم آباد بلاک ایس سے کچھ ہی فاصلے پر واقع ہے۔ اسی علاقے میں انہوں نے1963ء میں آنکھ کھولی تھی اور آخر کار یہی علاقہ ان کی آخری آرام گاہ قرار پایا۔
ان کی میت منگل کی سہ پہر ساڑھے تین بجے کوئٹہ سے کراچی پہنچی تھی۔ ان کے اہل خانہ اس وقت گلشن معمار میں مقیم ہیں۔ ان کی میت کراچی ائیرپورٹ سے یہیں لائی گئی۔ سات بجے کے آس پاس ان کی نماز جنازہ گھر کے پاس ہی واقع مسجد میں ادا کی گئی۔
پولیس کی بھاری نفری اور کمانڈوز نے ان کی رہائش گاہ کو سخت حفاظتی گھیرے میں لئے رکھا۔ رہائش گاہ کے اندر اور بیرونی حصے میں عزیز و اقارب، دوستوں، پڑوسیوں اور دیگر ملنے جھلنے والوں کا رش رہا۔
اہل خانے کو باری باری میت کا آخری دیدار کرایا گیا اور اس کے بعد آخری سفر کے لئے رخصت کردیا گیا۔ صولت مرزا کو شاہ محمد قبرستان میں اس لئے بھی دفن کیا گیا کہ ان کے والدین کی قبریں بھی یہیں موجود ہیں۔
صولت مرزا کو صبح 4 بج کر30 منٹ پر پھانسی دی گئی اور بعد ازاں میت ورثاء کے حوالے کردی گئی۔ ان کے تین بھانجے کوئٹہ سے میت کے لیکر کراچی پہنچے اور انہیں لحد میں اتارنے تک ساتھ ساتھ رہے۔
صولت مرزا کے کچھ قریبی رشتے داروں نے وائس آف امریکہ سے تبادلہٴخیال میں بتایا کہ صولت مرزا نے ’پاکستان شپ اونرز کالج‘ نارتھ ناظم آباد سے تعلیم حاصل کی تھی۔انہیں بچپن سے جوانی تک کرکٹ سے گہرا لگاوٴ رہا، جبکہ سیاست میں ان کا آنا دوستوں کی سنگت کے سبب حادثاتی طور پر ہوا۔
سیاست میں آنے کے بعد انہیں پولیس کی طرف سے سختیوں کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ کچھ عرصے کے لئے ملک بھی چھوڑنا پڑا۔ کچھ مدت بعد انہوں سمجھا کہ حالات موافق ہوگئے ہیں، لہذا، انہوں نے وطن واپسی ارادہ کیا۔ وہ بھیس بدل کر کراچی پہنچے، لیکن پولیس کی نظروں سے نہ بچ سکے اور یوں انہیں پابندی سلاسل ہونا پڑا۔
صولت مرزا کو 17سال جیل میں سزا کاٹنے کے باوجود رہائی نصیب نہیں ہوئی۔ ان کی پھانسی دو مرتبہ ٹلی۔ لیکن، تمام کوششوں کے باوجود، وہ جیل سے زندہ واپس نہیں آسکے۔