سعودی عرب کا غیر ملکی مزدوروں پر انحصار کم کرنے پر زور

عمارت سازی

سعودی عرب کے تقریبا ً 35 فی صد مزدور بیرون ملک سے آتے ہیں، جب کہ امریکہ میں یہ تعداد اندازاً 17 فی صد ہے۔ پاکستان، بھارت، مصر، بنگلہ دیش اور فلپائن سے تعلق رکھنے والے مزدور یہاں آتے ہیں

اٹھائیس برس کے زکریہ، سعودی عرب کے دارالحکومت، ریاض کی مارکیٹ میں روایتی لباس کی ایک دوکان پر کام کرتے ہیں۔ دو ماہ قبل یمن میں لڑائی سے بھاگ نکل کر وہ سعودی عرب آگئے تھے۔

اُنھوں نے بتایا کہ یمن کے مضافاتی علاقوں میں القاعدہ کی دہشت کے نتیجے میں اُن کے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ وہ امریکہ یا سویڈن کے ویزے کے لیے درخواست دیتے۔ اُنھوں نے ہاں کہا، جب اُن سے پوچھا گیا آیا وہ عدن کو یاد کرتے ہیں۔ اُن کے بقول، ''عدن میرا آبائی شہر ہے جس کے صاف ستھرے ساحل اور پہاڑ میں بھول نہیں سکتا''۔ لیکن، بقول اُن کے، ''جہاں زندگی کو سلامتی میسر نہ ہو لوگ وہاں سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں''۔

تاہم، تجزیہ کاروں کے بقول، سعودی عرب میں سکیورٹی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صرف جسمانی سلامتی کو یقینی بنایا جائے۔

جمال خشوغی معروف سعوی صحافی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ تیل کے کم نرخ اور سعودی تیل کی طلب میں کمی کےنتیجے میں، معاشی سکیورٹی کے لیے ضروری ہے کہ ملک کی تیل کی فروخت اور غیر ملکی کارکنان پر انحصار کم کیا جائے۔

خشوغی کے بقول، ''جب تک ہم دوسروں پر انحصار کریں گے، بلکہ یوں کہیئے کہ غیر ملکی مزدوروں پر تکیہ کریں گے، یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم روزگار کی دستیابی کے معاملے کو درست کر پائیں۔ دوسروں پر انحصار نہ صرف سعودیوں کا روزگار چھینتا ہے بلکہ یہ نئے ہنر سیکھنے کی راہ میں بھی حائل ہے۔''

عشروں تک، بڑی تعداد میں تارکین وطن کی آسان دستیابی، سعودی عرب میں کم لاگت پر ہنرمند کارکن فراہم کرتی رہی ہے، جب کہ لوگوں کو جنگ و جدل سے بھاگ کر یا غربت سے بچ کر یہاں آنے کا موقع ملتا رہا ہے۔

لیکن، غیر ملکی مزدور کہتے ہیں کہ سعودی عرب کے اقتصادی مستقبل کے بارے میں تشویش اور روزگار کے مواقع کے سلسلے میں مسابقت اب مشکل تر ہو چکی ہے، جب کہ یہاں کے ادارے رفتہ رفتہ مقامی لوگوں کو ترجیح دینے لگے ہیں۔

سعودی عرب کے تقریبا ً 35 فی صد مزدور بیرون ملک سے آتے ہیں، جب کہ امریکہ میں یہ تعداد اندازاً 17 فی صد ہے۔ پاکستان، بھارت، مصر، بنگلہ دیش اور فلپائن سے تعلق رکھنے والے مزدور یہاں آتے ہیں، جب کہ ملکوں کی یہ فہرست طویل ہے۔

نچلے درجے کی ملازمتیں

خشوغی کے بقول، ''سعودی عرب کے کئی لوگ نہیں چاہتے کہ غیر ملکی روزگار کے مواقع پر قابض رہیں، جب کہ عام طور پر سعودی ٹیکسی ڈرائیور یا آٹو مکینک یا ایسی ہی نچلے سطح کے روزگار سے وابستہ نہیں رہنا چاہتے، جنھیں وہ 'نچلے طبقے کی ملازمتیں' شمار کرتے ہیں''۔

اُنھوں نے بتایا کہ عام طور پر اِن ملازمتوں کو ہیچ خیال کیا جاتا ہے۔ اِس لیے نہیں کہ اِن میں ہنر کی ضرورت نہیں پڑتی، بلکہ اِس لیے کہ غیر ملکی بہت ہی کم اجرت پر کام پر تیار ہوجاتے ہیں۔