عالمی ادارہ محنت ’آئی ایل او‘ کے اندازے کے مطابق پاکستان میں مشقت کرنے والے بچوں کی تعداد ایک کروڑ بیس لاکھ ہے، مگر ملک میں بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
غربت کے باعث پاکستان میں لاکھوں بچے اپنے خاندانوں کی کفالت کے لیے کم عمری میں محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔
پاکستان میں 1996 میں کیے گئے ایک قومی سروے کے مطابق 33 لاکھ بچے میں مشقت کرتے ہیں، مگر عالمی ادارہ محنت کے 2012 میں کیے گئے ایک سروے میں کہا گیا کہ پاکستان میں مشقت کرنے والے بچوں کی تعداد ایک کروڑ بیس لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔
تاہم بچوں کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے، کیونکہ ان اعداد و شمار میں گھروں اور اینٹوں کے بھٹوں میں جبری مشقت کرنے والے بچوں کو شامل نہیں کیا گیا۔
بچوں کے حقوق کی تنظیم سپارک سے وابستہ زوہیر وحید نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ملک میں مشقت کرنے والے بچوں کی تعداد معلوم کرنے کے لیے ایک قومی سروے کرنے کی اشد ضرورت ہے تا کہ ان کے لیے مناسب پالیسیاں تشکیل دی جا سکیں۔
انہوں نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 25 A منظور ہونے کے بعد پانچ سے سولہ سال کی عمر کے تمام بچوں کو مفت تعلیم دینا ریاست کی ذمہ داری ہے مگر اس کو یقینی بنانے کے لیے مناسب اقدامات نہیں کیے جا رہے۔
انہوں نے کہا کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم میں شعبہ محنت صوبوں کو منتقل ہونے کے بعد اس سلسلے میں قانون سازی صوبوں کی ذمہ داری ہے، مگر خیبر پختونخوا کے علاوہ کسی صوبے نے اس پر ابھی تک قانون سازی نہیں کی۔
بچوں کی مشقت پر تحفظات اپنی جگہ مگر بہت سے خاندانوں کی بقا بچوں کے روزگار سے وابستہ ہے۔ اس سلسلے میں حکومت اور عالمی اداروں کی تجویز ہے کہ ضرورت کے تحت 14 سال کی عمر کے بچوں کو ایسے شعبوں میں کام کرنے کی اجازت دی جائے جن میں انہیں نقصان پہنچنے کا خدشہ نہ ہو اور ان کے تعلیمی مواقع متاثر نہ ہوں۔
پاکستان نے بھی بچوں کی مشقت کی کم سے کم عمر اور مشقت کی بدترین اقسام سے متعلق عالمی ادارہ محنت کے کنونشنز 138 اور 182 کی توثیق کر رکھی ہے، مگر ان پر موثر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔
ملک میں لاکھوں بچے اب بھی کم عمری میں گھروں، قالین بافی، چمڑے کی صنعت، کانچ کی چوڑیاں بنانے، ورکشاپوں، کوئلے کی کانوں اور اینٹوں کے بھٹوں میں کام کرنے سمیت کئی خطرناک شعبوں میں مشقت کر رہے ہیں۔ اس کو روکنے اور بچوں کی تعلیم یقینی بنانے کے لیے نا صرف قانون سازی بلکہ اس پر مؤثر عملدرآمد کی ضرورت ہے۔
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ بچوں کی مشقت کے خلاف قوانین پر نفاذ کو موثر بنایا جا رہا ہے جب کہ حال ہی میں 158 ایسے مراکز بھی بنائے گئے ہیں جہاں نادار بچوں کو مفت تعلیم اور رہائش کی سہولت فراہم کی جاتی ہے تاکہ اُنھیں جبری مشقت سے بچایا جا سکے۔