'امریکین مسلمز فور ٹرمپ' کے سربراہ، ساجد تارڑ نے کہا ہے ڈونالڈ ٹرمپ کی کامیابی ''ملک کی تعمیر و ترقی کے لیےنیک شگون ہے''، اور ''وہ بلاتفریق سارے امریکیوں کے صدر ہوں گے''۔ اُنھوں نے کہا کہ ''مخالفین، اور لبرل میڈیا کو چاہیئے کہ منتخب صدر کے بارے میں ڈر خوف پیدا کرنے کے حربوں سے اجتناب کریں''۔
ٹرمپ کی کامیابی کے بعد، ہفتے کی شام ورجینیا میں پاکستانی امریکی صحافیوں سے ملاقات میں اُنھوں نے کہا کہ ہار جیت جمہوریت کا حسن ہوا کرتی ہے، اور مخالفین کو اپنی شکست تسلیم کر لینی چاہیئے۔ بقول اُن کے ''وقت آگیا ہے کہ ہم پارٹی بازی کی تفریق اور تلخیوں کو بھلا کر، ملک کی ترقی کے لیے تیزی سے قدم آگے بڑھائیں''۔
ساجد تارڑ نے کہا کہ ''یہ تاثر یکسر غلط ہے'' کہ منتخب صدر نسل پرست ہیں یا مسلمانوں، تارکین وطن یا خواتین کےخلاف ہیں؛ اور لبرل ذرائع ابلاغ سے کہا کہ وہ ''اپنا زاویہ نظر ٹھیک کرے''۔
اُنھوں نے کہا کہ منتخب صدر نے ری پبلیکن پارٹی کے وسیع ایجنڈا پر عمل درآمد کے لیے ''موزون ترین، باصلاحیت اور پیشہ ور افراد کو نامزد کرنے کا آغاز کر دیا ہے''۔
ایک سوال کے جواب میں، ساجد تارڑ نے کہا کہ صحافت کا کام کسی بھی معاملے کےبلا امتیاز دونوں رخ پیش کرنا ہے، جب کہ پڑھنے والے، سامعین و ناظرین کو حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ پیش کردہ غیر جانبدارانہ حقائق کی بنیاد پر اپنی رائے قائم کریں۔
ایک سوال کے جواب میں، ری پبلیکن پارٹی کے سرگرم رہنما نے کہا کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کی واقعات ''حقیقت کم اور پروپیگنڈا زیادہ ہے''۔
اس ضمن میں، ساجد تارڑ نے کہا کہ ری پبلیکن پارٹی کی انتخابی مہم کے دوران ہی، پارٹی کی کمان نے کہہ دیا تھا کہ مسلمان آبادی کو قریب لانے کے لیے بین المذاہب مکالمے کا سلسلہ جاری کیا جائے گا۔ اُنھوں نے بتایا کہ امریکی مسلمانوں کے حوالے سے ایک مشاورتی ادارہ تشکیل دیا جا سکتا ہے، جسے کانگریس کے دونوں ایوانوں کی حمایت حاصل ہوگی، اور اس میں ثقافتی اور مذہبی اقدار سے بہتر آگہی اور فروغ کے لیے اقدامات وضع کیے جائیں گے۔ اس سلسلے میں، اُنھوں نے کہا کہ وہ اس بات کے خواہاں ہیں کہ اِس ضمن میں کوئی ٹھوس کردار ادا کریں۔
پاکستانی نژاد امریکیوں کے بارے میں ایک سوال پر، ساجد تارڑ نے کہا کہ ''ہماری برادری جذبات کے بہائو میں صحیح و غلط کی تفریق بھول جاتی ہے''۔ اُنھوں نے کہا کہ ''اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستانی کمیونٹی نے ٹرمپ کے مخالفین کو ووٹ دیا''۔ یہاں تک کہ، اُنھوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ کی کھل کر اور ٹھوس حمایت کرنے پر اُنھیں دھمکیاں تک ملی تھیں۔ برعکس اس کے، اُنھوں نے کہا کہ بھارتی امریکی برادری کا انداز ''ہوش مندانہ رہا ہے''۔ تاہم، اُنھوں نے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ سب باتیں بھلا کر آگے بڑھا جائے۔
اُنھوں نے کہا کہ ''ہمیں چاہیئے کہ امریکی سیاسی نظام میں نہ صرف دلچسپی لیں، بلکہ حقائق جانیں، ہر طبقے سےاچھی بات سیکھیں، مکالمہ کریں اور امریکی معاشرے کا حصہ بن جائیں''۔
انسداد دہشت گردی کے معاملے پر، اُنھوں نے کہا کہ حکومتِ پاکستان اور فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف کی قیادت میں پاکستان نے شدت پسندی کے خلاف قابلِ قدر اقدامات کیے ہیں، جن میں خودساختہ اچھے اور برے طالبان کی تفریق نہیں برتی گئی، جس کی دنیا معترف ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ ''کوئی وجہ نہیں کہ بہتر کارکردگی کی بنا پر امریکہ پاکستان تعلقات میں بہتری کی توقع نہ کی جائے''۔ اپنے لیے، اُنھوں نے کہا کہ وہ آبائو اجداد سے پاکستانی ہیں اور پاکستانی ہی رہیں گے۔
اُنھوں نے کہا کہ یہ بات غلط ہے کہ مسلمانوں کے خلاف 'رجسٹریشن' کا عمل شروع کیا جائے گا، یا اُنھیں اذیت دی جاسکتی ہے۔ اُنھوں نے واضح کیا کہ ''کم از کم میں نے کبھی ایسی کوئی بات نہیں سنی''۔
ساتھ ہی، اُنھوں نے کہا کہ دہشت گردی یا قدامت پسندی کا کسی ایک مذہب سے تعلق جوڑنا درست نہ ہوگا۔
ساجد تارڑ نے کہا کہ ڈونالڈ ٹرمپ کامیاب کاروباری شخص رہے ہیں، جو سیاست دان نہیں؛ لیکن، وہ اپنی سچائی، لگن اور خداداد صلاحیت کے بل بوتے پر کامیاب ہوتے رہے ہیں۔