پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا میں حالیہ عرصے کے دوران بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات میں اضافے کے بعد ملزمان کے خلاف سخت کارروائی اور ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے مؤثر قانون سازی کے مطالبات زور پکڑ رہے ہیں۔
چند روز قبل ضلع نوشہرہ میں ایک چھ برس کی بچی کو مبینہ طور پر جنسی تشدد کے بعد قتل کر دیا گیا تھا جس کے بعد لوگوں میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
خیبر پختونخوا کے وزیر اعلٰی محمود خان نے واقعے کا نوٹس لے کر ملزمان کی گرفتاری کا حکم دیا ہے، لیکن آئے روز ایسے واقعات سے عوام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
خیبر پختونخوا میں بچوں کے حقوق کے سرکاری ادارے کے ڈپٹی ڈائریکٹر اعجاز خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ نوشہرہ واقعے کے علاوہ صوابی میں ایک شخص اپنی دو کم سن بچیوں کو فروخت کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں گرفتار کیا گیا ہے۔
اُن کے بقول پشاور ہی کے علاقے سربند میں پولیس نے مدرسے کے ایک قاری کو سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہونے کے بعد گرفتار کیا ہے۔ مذکورہ ویڈیو میں قاری کو بچے پر تشدد کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
ضلع نوشہرہ میں دو دن قبل چھ برس کی بچی کی بوری بند تشدد زدہ لاش ملی تھی۔ اعجاز خان نے بتایا کہ اس بچی کو جنسی تشدد کے بعد قتل کیا گیا تھا۔ اس واقعے میں ملوث ملزم کو پولیس نے گرفتار کرلیا ہے جس نے دوران تفتیش اعترافِ جرم کر لیا ہے۔
ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر نوشہرہ کیپٹن (ریٹائرڈ) نجم الحسنین کے مطابق اس واقعے کے بعد پولیس نے بچی کے گھر کے آس پاس کے لوگوں کی چھان بین اور گھروں کی تلاشی لینے کا فیصلہ کیا۔
اُن کے بقول دوران تلاشی ایک گھر سے دُھلے ہوئے کپڑے ملے جس پر نشانات تھے، ملزم کو شامل تفتیش کیا گیا جس نے اپنے گھناؤنے جرم کا اعتراف کر لیا۔
مذکورہ واقعے کی مختلف سیاسی جماعتیں اور بچوں کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیمیں مذمت کر رہی ہیں۔
ان تنظیموں کا یہ مؤقف ہے کہ صوبے میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے مؤثر قانون سازی نہ ہونے کی وجہ سے ملزمان کو شہہ ملتی ہے جب کہ عدالتی کارروائی میں تاخیر اور قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے ملزمان بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم کارکن عمران ٹھکر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بچوں کے خلاف تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات کی اصل وجہ حکومتی سطح پر اقدامات کا فقدان اور متعلقہ اداروں کی نااہلی ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ قوانین تو بنائے جاتے ہیں مگر ان قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے اسی طرح قانون سازی تو کی جاتی ہے مگر قانون سازی کے بعد بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اداروں کے قیام میں دلچسپی نہیں لی جاتی۔
اعجاز خان کہتے ہیں کہ اس سال بھی بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن کئی واقعات رپورٹ بھی نہیں ہوتے۔
عمران ٹھکر کا کہنا ہے کہ بچوں کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے قانون 2010 میں صوبائی اسمبلی سے منظور کیا گیا تھا۔
اُن کے بقول مذکورہ قانون کے تحت حکومت نے اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے حقوق اطفال (یونیسف) کے تعاون سے 12 اضلاع میں بچوں کے حقوق کے مراکز قائم کیے تھے۔ دسمبر 2018 میں فنڈز ختم ہونے پر صوبائی حکومت کی درخواست پر اس میں مارچ 2019 تک توسیع کی گئی تھی۔
عمران کہتے ہیں کہ جون 2019 میں وزیر اعلٰی محمود خان کے حکم پر ان 12 اضلاع میں ان مراکز کی بحالی کے لیے چار کروڑ 61 لاکھ روپے فراہم کیے گئے مگر اب تک یہ مراکز بحال نہیں ہوئے۔
اعجاز خان کہتے ہیں کہ ان مراکز کی بحالی کے لیے آسامیاں پُر کی جا رہی ہیں جس کے لیے اشتہارات بھی دیے گئے ہیں۔ بہت جلد یہ مراکز مکمل طور پر بحال ہو جائیں گے۔
حکام کے مطابق صوبہ خیبر پختونخوا میں پشاور سمیت مردان، ایبٹ آباد اور ضلع مہمند میں چار چائلڈ کورٹس کام کر رہی ہیں۔ ضلع مہمند میں یہ عدالت چند روز قبل ہی قائم کی گئی ہے۔
عمران ٹھکر اور اعجاز خان نے صوبے کے ان چار اضلاع میں چائلڈ پروٹیکشن کورٹس کے قیام کو خوش آئندہ قرار دیا ہے۔
عمران ٹھکر نے بتایا کہ ان چار ضلعی عدالتوں میں ابھی تک بچوں کے خلاف جرائم کے 1140 مقدمات نمٹائے گئے ہیں۔
اُن کے بقول تشدد سے متاثرہ 202 بچے ازخود ان عدالتوں میں پیش ہوئے۔ ان بچوں میں 79 فی صد لڑکے اور 21 فی صد لڑکیاں تھیں۔ ان ضلعی عدالتوں کے علاوہ پائلٹ چائلڈ کورٹس میں بھی 512 بچوں کے خلاف درج مقدمات کی سماعت کی گئی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
خیبر پختونخوا میں بچوں اور خواتین کے خلاف تشدد کے تدارک کے لیے 2010 میں لائے گئے قانون میں مزید ترامیم کے لیے اسپیکر صوبائی اسمبلی مشتاق غنی کی سربراہی میں ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔
اس خصوصی کمیٹی نے متعدد تجاویز پر مبنی رپورٹ چھ جولائی کو اسمبلی میں پیش کر کے حکومت کے حوالے کی ہیں۔
حکمران جماعت پاکستان تحریکِ انصاف سے تعلق رکھنے والی رُکن صوبائی اسمبلی ڈاکٹر سمیرہ شمس نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اب یہ سفارشات مختلف سرکاری محکموں میں زیر غور ہیں جس کے بعد ہی کابینہ اس کی منظوری دے گی۔
اُن کے بقول سفارشات کی منظوری کے بعد 2010 کے ایکٹ میں ترامیم لانے کے لیے اسے اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔
حکمران جماعت کی ایک اور رکن اسمبلی اور خصوصی کمیٹی میں شامل عائشہ بانو نے کہا کہ کمیٹی نے بین الاقوامی قوانین، اسلامی اقدار اور انسانی حقوق کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے گھناؤنے جرائم میں ملوث افراد کو سخت سزائیں دینے کی تجویز دی ہے۔