جیش محمد جیسے دہشت گرد گروپس کو برداشت نہیں کیا جائے گا، ایلس ویلز

سابق نائب وزیر خارجہ برائے جنوبی ایشیا ایلس ویلز کانگریس کی ذیلی کمیٹی میں سوالوں کے جواب دے رہی ہیں۔

جنوبی ایشیا کے لیے امریکہ کی سابق معاون نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز نے کہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات مالی امداد سے ہٹ کر اب تجارتی تعلقات کی طرف بڑھ رہے ہیں اور یوں وہ کثیر جہتی شکل اختیار کر رہے ہیں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ پاکستان پر واضح کر دیا گیا ہے کہ جیش محمد جیسی دہشت گرد تنظیموں کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔

ایشیا پیسفک اور جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ سے متعلق کانگریس کی ذیلی کمیٹی کی سماعت کے دوران امریکہ کے مالی سال 2020 کے بجٹ میں جنوبی ایشیا کے لیے مالی ترجیحات کا ذکر کرتے ہوئے ایلس ویلز نے بتایا کہ پاکستان کے لیے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں اقتصادی تعاون کی مد میں سات کروڑ ڈالر مختص کرنے کی تجاویز پیش کی جا رہی ہیں۔

تاہم انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان کے لیے امریکہ کا سب سے بڑا مالی تعاون بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ذریعے اسے دیا جانے والا 6 ارب ڈالر کا پیکج ہے جو امریکی تعاون کے بغیر ممکن نہ ہوتا۔

ذیلی کمیٹی کے چیئرمین بریڈ شرمین نے اس موقع پر اس تشویش کا اظہار کیا کہ اگر پاکستان آئی ایم ایف کا قرضہ واپس نہ کر سکا تو اس سے امریکہ کے ٹیکس دہندگان کو ایک ارب ڈالر کا نقصان ہو سکتا ہے۔

سندھی زبان

ایلس ویلز نے کہا کہ پاکستان کی پانچ کروڑ کے لگ بھگ آبادی کے صوبے سندھ میں سندھی زبان کے فروغ کے لیے بھی امریکہ بھرپور اقدامات کر رہا ہے تاکہ سندھی زبان بولنے والی آبادی کے ساتھ رابطے بڑھائے جا سکیں۔ اس موقع پر ذیلی کمیٹی کے چیئرمین بریڈ شرمن کا کہنا تھا کہ امریکہ کو سندھی زبان میں نشریات شروع کرنی چاہئیں تاکہ پیغام سندھ کے تمام عوام تک پہنچایا جا سکے۔

ڈاکٹر آفریدی کیس

ذیلی کمیٹی نے ڈاکٹر آفریدی کو بدستور حراست میں رکھے جانے پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔ چیئرمین نے کہا کہ ڈاکٹر آفریدی نے دہشت گردی کے خلاف امریکہ سے تعاون کیا تھا، لہذا امریکی محکمہ خارجہ کو چاہئیے کہ وہ ان کی رہائی کے لیے پاکستان پر دباؤ ڈالے۔ ایلس ویلز کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں پاکستانی حکام سے بات چیت جاری ہے۔

افغانستان

سابق امریکی نائب معاون وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امن و استحکام کے قیام کے سلسلے میں پاکستان میں یہ خدشہ پایا جاتا ہے کہ افغانستان میں ڈیونڈ لائن کے بارے میں کچھ تحفظات پائے جاتے ہیں اور ایک مضبوط اور متحد افغانستان پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے کچھ علاقے پر ملکیت کا دعویٰ کر سکتا ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ پاکستان نے طالبان کو امن بات چیت کے لیے آمادہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور افغانستان میں امن مذاکرات کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد کی طالبان سے بات چیت میں خاصی پیش رفت ہو رہی ہے۔

ذیلی کمیٹی کے چیئرمین بریڈ شرمن کا کہنا تھا کہ امریکہ ہمیشہ سے طالبان کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتا آیا ہے اور اب ہم اس کے ساتھ امن بات چیت کر رہے ہیں۔ لہذا اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ وہ دہشت گردی ترک کر کے امن کے لیے رضامند ہو جائیں گے۔

ایلس ویلز کا کہنا تھا کہ افغان حکومت سمیت امن بات سے متعلق تمام فریقین کے ساتھ رابطے قائم ہیں اور اس امن بات چیت کا مقصد یہ ہے کہ افغانستان میں امن و استحکام ہو اور مستقبل کی حکومت میں آبادی کے تمام حصوں کو شامل کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں افغان خواتین کا کردار بھی بڑھایا جا رہا ہے۔

یو ایس ایڈ کی اعلیٰ عہدے دار کیرن فری مین نے جنوبی ایشیا کے لیے یو ایس ایڈ کی ترجیحات بیان کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ افغانستان میں زراعت کے فروغ، خود انحصاری اور سول سوسائٹی کے استحکام کے لیے اہم کردار ادا کر رہا ہے۔

بھارت

ذیلی کمیٹی کے ارکان کا کہنا تھا کہ بھارت کے ساتھ امریکہ کے سٹریٹجک تعلقات ہیں اور امریکہ ان تعلقات کو بڑھاتے ہوئے اگلی سطح تک لے جانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس سلسلے میں آئندہ مالی سال کے بجٹ میں انڈو پیسفک علاقے کے پروگراموں کے لیے 40 کروڑ ڈالر مختص کیے جانے کی درخواست کی گئی ہے۔

ذیلی کمیٹی کے ارکان نے بھارت کی طرف سے روس سے S 400 میزائل دفاعی پروگرام خریدنے کے منصوبے پر تشویش کا اظہار کیا۔ ایلس ویلز کا کہنا تھا کہ بھارت گزشتہ دس برس کے دوران دفاعی ساز و سامان کی خریداری کے لیے مختلف ممالک سے رجوع کر رہا ہے ۔ تاہم انہوں نے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ بھارت کی دفاعی ضرورتوں کو بہت واضح طور پر سمجھتی ہے اور اب بھارت کے ساتھ امریکہ کی مشترکہ فوجی مشقیں دنیا بھر کے کسی بھی ملک سے زیادہ ہیں، جن کا اب سے دس برس پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔