|
عالمی بینک اور بلوم برگ نے پاکستان میں معاشی استحکام کی پیش گوئی کی ہے لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ ترقی کے حصول کے لیے سخت معاشی اصلاحات پر عمل کرنا ہوگا۔
عالمی اداروں کے مطابق پاکستان کی معیشت نے ترقی دکھانا شروع کر دی ہے جب کہ مہنگائی میں بھی دو سال کے بعد کمی واقع ہونا شروع ہوئی ہے۔
ورلڈ بینک کے تازہ تخمینوں کے مطابق رواں مالی سال سے پاکستان کی اقتصادی ترقی بڑھنے کی توقع ہے لیکن آئندہ دو سال تک یہ تین فی صد سے کم رہے گی۔
رواں ہفتے ہی پاکستان اسٹاک مارکیٹ نے تاریخ میں پہلی بار 67 ہزار کا بینچ مارک عبور کیا ہے جسے معیشت میں استحکام کے اشارے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں معاشی استحکام کے آثار نمایاں ہونا مثبت پیش رفت ہے لیکن حکومت کو اب بھی بہت کام کرنا ہے۔
خیال رہے کہ سخت حکومتی معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں پاکستان ڈیفالٹ ہونے سے تو محفوظ رہا لیکن گزشتہ دو سال سے ملکی معیشت بدستور نازک صورتِ حال کا شکار ہے۔
سابق وزیرِ خزانہ سلمان شاہ کہتے ہیں کہ معیشت میں گراوٹ کا عمل رکنا ایک مثبت اشارہ ہے لیکن سخت اصلاحات کی صورت میں ہی ملک کو ترقی کی طرف لے جایا جا سکتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مہنگائی میں یقیناً کچھ کمی ہوئی ہے اور آئندہ بھی کمی متوقع ہے جس کی وجہ سے عوام کو کچھ ریلیف ملے گا۔
بظاہر دکھائی دینے والے معاشی استحکام سے متعلق سابق وزیرِ خزانہ نے کہا کہ اصل معاملہ زرِ مبادلہ کی شرح کا ہے جسے درآمدات کو کم کر کے عارضی طور پر روک رکھا ہے۔ ان کے بقول جب درآمدات کو مکمل کھولا جائے گا تو یہ دیکھنا ہوگا کہ اس کے روپے کی قدر پر کیا اثرات پڑھیں گے۔
'معاشی استحکام کے لیے سیاسی استحکام ضروری ہوگا'
نسٹ اسکول آف سوشل سائنسز کے ڈین ڈاکٹر ظفر محمود کا بھی خیال ہے کہ حکومت نے ادائیگیوں کے توازن کو وقتی حل کر لیا ہے۔ تاہم درآمدات پر عائد پابندیاں اٹھانے کے بعد معلوم ہوگا کہ ڈالر کے مقابلے میں روپیہ کہاں کھڑا ہے۔
ڈاکٹر ظفر محمود کے مطابق ملک میں سیاسی بے یقینی بدستور موجود ہے۔ ملکی معیشت کے استحکام کے لیے ضروری ہوگا کہ سیاسی استحکام برقرار رہے تب ہی ملک ترقی کی طرف بڑھ سکے گا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں معاشی استحکام کے باوجود ترقی کی شرح (شرح نمو) تین فی صد سے زائد نہیں پہنچ رہی جو کہ ملکی آبادی میں اضافے کے اعتبار سے بہت کم ہے۔
SEE ALSO: پاکستانی معیشت سے متعلق امریکی خدشات کتنے جائز ہیں؟ماہر معیشت و سابق وزیرِ خزانہ ڈاکٹر اشفاق حسن کہتے ہیں کہ پاکستان کو چھ فی صد سے زائد کی شرح نمو حاصل کرنی ہے جس کے بعد ہی بے روزگار نوجوانوں کے لیے مواقع اور بڑھتی آبادی کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے گا۔
اشفاق حسن کے خیال میں عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے پروگرام میں رہتے ہوئے پاکستان تین فی صد سے زائد کی شرح نمو حاصل نہیں کرسکتا۔ ان کے بقول آئی ایم ایف پروگرام کے نتیجے میں معاشی اصلاحات لانا مشکل ہے کیوں کہ اگر آئی ایم ایف کی ترجیح اصلاحات ہوتیں تو پاکستان 36 سال میں اس پروگرام میں رہنے کے نتیجے میں کم از کم توانائی کے شعبے میں اصلاحات ضرور لے آتا۔
پاکستان کی موجودہ حکومت معیشت کو سہارا دینے اور زرِمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے کے لیے آئی ایم ایف سے نیا قرض پروگرام چاہتی ہے۔
آئی ایم ایف نے حال ہی میں پاکستان کو 1.1 ارب ڈالر کی قسط دینے پر رضامندی بھی ظاہر کی ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان جولائی سے شروع ہونے والے مالی سال میں 24 بلین ڈالر کی بیرونی مالیاتی ضروریات کے ساتھ آئی ایم ایف کی امداد پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے، جو اس کے زرمبادلہ کے ذخائر سے تقریباً تین گنا زیادہ ہے۔
SEE ALSO: آئی ایم ایف پروگرام سے ملک میں مہنگائی کا طوفان آئے گا: عمران خانسابق وزیرِ خزانہ سلمان شاہ کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت حکومت نے بڑے بڑے اقدامات تو لے لیے ہیں لیکن تمام تر صورتِ حال کے باوجود ملک میں توانائی کے شعبے میں اصلاحات نہیں کی گئیں جب کہ گردشی قرضے بھی بڑھ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آنے والے بجٹ سے معلوم ہوگا کہ حکومت اپنے اخراجات میں کیسے کمی لاتی ہے اور محصولات میں اضافے کی کیا حکمت عملی ہوگی۔
پاکستان کی مہنگائی میں کی رفتار کم ہو کر 20.68 فی صد ہو گئی ہے جو تقریباً دو سال کے دوران سب سے کم ہے۔ رواں مالی سال میں افراط زر اوسطاً 26 فی صد رہنے کی توقع ہے اور اگلے سال 15 فی صد جب کہ 2026 میں 11.5 فی صد تک رہنے کی توقع ہے۔
عالمی ادارے کے تخمینے کے مطابق 30 جون کو ختم ہونے والے موجودہ مالی سال میں پاکستان کی معیشت کی شرح نمو 1.8 فی صد رہے گی۔ مسلسل مالی استحکام اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے نیا بیل آؤٹ پروگرام ہونے کے نتیجے میں اگلے سال شرح نمو 2.3 فی صد اور 2026 میں 2.7 فی صد ہونے کی توقع ہے۔
تاہم ورلڈ بینک کا یہ بھی کہنا ہے کہ پائیدار اقتصادی ترقی کے لیے پالیسی کی رکاوٹوں کو دور نہیں کیا گیا ہے۔
موجودہ حکومت سرکاری خزانے پر بوجھ سمجھے جانے والے اداروں کی نجکاری پر کام بھی کر رہی ہے۔ وزارتِ خزانہ نے رواں برس جنوری میں جاری کردہ ایک رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ سرکاری کمرشل اداروں نے مالی سال 2021 اور 2022 کے دوران مجموعی طور پر 1395 ارب روپے کا نقصان کیا۔ یہ رقم ملک میں وفاقی حکومت کی جانب سے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے حجم سے دگنی بتائی جاتی ہے۔