چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف اپوزیشن کی عدم اعتماد کی تحریک مسترد ہونے کے بعد حکومت اسے کامیابی قرار دے رہی ہے جب کہ اپوزیشن جماعتیں اس پر شدید تنقید کر رہی ہیں۔
پاکستان کی پارلیمان کے ایوانِ بالا میں یکم اگست کو چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کی پیش کردہ تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ ہوئی تھی۔
تحریک کے حق میں صرف 50 ووٹ آئے حالاں کہ حزبِ اختلاف کے دعوے کے مطابق ایوان میں اس کے 64 ارکان ہیں۔ تحریک کو کامیابی کے لیے کم از کم 53 ووٹ درکار تھے۔
تحریکِ عدم اعتماد پر رائے شماری کے نتائج سامنے آنے کے بعد اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں نے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے اسے جمہوریت کا سیاہ ترین دن قرار دیا اور کہا کہ آج پارلیمنٹ پر حملہ کیا گیا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا اس موقع پر کہنا تھا کہ 14 سیینٹرز نے اپنی پارٹی کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے جن سے اس کا حساب لیا جائے گا۔
انہوں نے اعلان کیا کہ حزبِ اختلاف اس معاملے پر کل جماعتی کانفرنس بلائے گی اور اب وہ یہ لڑائی سینیٹ میں لڑیں گے۔
ڈرا دھمکا کر چند ووٹ توڑنے کا کھیل قابل فخر نہیں، شرمناک فعل ہے جو ہر بار کامیاب نہیں ہو سکتا۔ جمہوری قوتوں کو ڈرے بغیر اپنا حق چھیننا چاہیے۔ سیلکٹد کب تک خیر منائیں گے؟ جعل سازی کو ایک دن مٹنا ہے۔ تحریک عدم اعتماد دوبارہ لانی چاہیے۔
— Maryam Nawaz Sharif (@MaryamNSharif) August 1, 2019
اپوزیشن کی قرارداد مسترد ہونے پر مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کئی ٹوئٹس کی ہیں۔
اپنی ٹوئٹس میں مریم نواز نے کہا ہے کہ ڈرا دھمکا کر چند ووٹ توڑنے کا کھیل قابلِ فخر نہیں بلکہ شرمناک فعل ہے جو ہر بار کامیاب نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ایوان میں چیئرمین کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد دوبارہ لانی چاہیے۔
65 ووٹ والے ہار گئے36 ووٹ والے جیت گئےپاکستانیوں 2018 کا الیکشن اب سمجھ آیا ؟
— Maryam Nawaz Sharif (@MaryamNSharif) August 1, 2019
ایک اور ٹوئٹ میں مریم نواز نے کہا کہ 65 ووٹ ہار گئے، 36 ووٹ والے جیت گئے۔ "پاکستانیوں 2018 کا الیکشن اب سمجھ آیا؟"
Congratulations to Chairman Senate Sanjrani - resolution for his removal defeated by a big margin!
— Shireen Mazari (@ShireenMazari1) August 1, 2019
انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری نے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو مبارک باد دی ہے اور کہا ہے کہ ان کے خلاف آنے والی قرارداد کو بڑے فرق سے شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
Congratulations to Chairman Senate Sadiq Sanjrani. Both Opposition and Govt benches always admired his behaviour during senate proceedings and he deserves to complete his tenure.This is victory of our narrative against corruption! ✌🏻
— Usman Buzdar (@UsmanAKBuzdar) August 1, 2019
وزیرِ اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے بھی صادق سنجرانی کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی چیئرمین سینیٹ کے رویے کی معترف ہیں، اس لیے انہیں اپنی مدت پوری کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ کرپشن کے خلاف یہ ہمارے بیانیے کی جیت ہے۔
عمران خان کو آج الیکشن 2018 سے بڑی کامیابی ملی ہے؛اپوزیشن حلقوں میں "فرشتوں" نے کام دیکھا دیا! pic.twitter.com/NHOFpughIl
— Kamran Khan (@AajKamranKhan) August 1, 2019
سینئر صحافی کامران خان نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان کو آج الیکشن 2018 سے بھی بڑی کامیابی ملی ہے۔ اپوزیشن حلقوں میں "فرشتوں" نے کام دکھا دیا۔
سینٹ چیرمین کے خلاف جب تحریک عدم اعتماد پیش ھوئ تو اس کے حق میں 64 ووٹ تھے۔ ایک گھنٹے کے بعد جب پاس ھونے کا وقت آیا تو 50 ووٹ رہ گئے۔ اس کو کہتے ھیں جمہوریت، اس کو کہتے ھیں شفافیت۔ یہ ھوتا ھے قائد کا پاکستان جس کی نمائندگی فردوس عاشق اعوان بھرپور انداز سے کرتی ھیں! ماشاللہ
— Syed Talat Hussain (@TalatHussain12) August 1, 2019
صحافی طلعت حسین نے ٹوئٹر پر سوال اٹھایا کہ چیئرمین سینیٹ کے خلاف جب تحریکِ عدم اعتماد پیش ہوئی تو اس کے حق میں 64 ووٹ تھے۔ ایک گھنٹے بعد جب قرارداد پاس ہونے کا وقت آیا تو 50 ووٹ رہ گئے۔ اس کو کہتے ہیں جمہوریت، اس کو کہتے ہیں شفافیت۔
یاد رہے کہ صادق سنجرانی گزشتہ برس مارچ میں پیپلز پارٹی اور تحریکِ انصاف کی حمایت سے 57 ووٹ حاصل کر کے چیئرمین سینیٹ منتخب ہوئے تھے جب کہ ان کے مدِ مقابل مسلم لیگ (ن) کے راجا ظفر الحق کو 46 ووٹ ملے تھے۔
حیران کن طور پر 2018 کے سینیٹ انتخابات کے بعد مسلم لیگ (ن) نے پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کو دوبارہ منتخب کرنے کے لیے مدد کی پیشکش کی تھی۔ لیکن آصف علی زرداری نے اسے قبول کرنے کی بجائے تحریکِ انصاف سے ہاتھ ملا لیا تھا۔