پاکستانی پارلیمنٹ میں قانونِ بغاوت میں ترامیم کا بل پیش

(فائل فوٹو)

پاکستان کی پارلیمنٹ کے ایوان بالا سینیٹ میں ایک قانونی بل پیش کیا گیا ہے جس میں تعزیرات پاکستان میں ترمیم کرتے ہوئے برطانوی نو آبادیاتی دور کے بغاوت کے قانون کو ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

حزب اختلاف کی دُوسری بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما سینیٹر رضا ربانی کی جانب سے نجی رکن کی حیثیت سے پیش کیے گئے قانونی بل میں تعزیرات پاکستان 1860 کے سیکشن 124-اے میں ترمیم کرنے کا کہا گیا ہے۔

سینیٹ میں پیش کردہ قانونی بل کی دستیاب نقل میں کہا گیا ہے دفعہ 124-اے پاکستان کو وراثت میں ملنے والے نو آبادیاتی ڈھانچے کا حصہ ہے۔ جو اس وقت بھی نافذ العمل ہے۔ بغاوت کے قانون کا مقصد مقامی افراد کو قابو میں رکھنا تھا تاکہ وہ آقاؤں کے خلاف بغاوت پر نہ اکسائیں۔

تعزیرات پاکستان میں حکومت کے خلاف نفرت یا حقارت دلانے یا اس کی حوصلہ افزائی کرنے کی کوشش کو بغاوت قرار دیا گیا ہے۔ قانون کے مطابق اس جرم کے ثابت ہونے پر ملزم کو عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

رضا ربانی نے بل میں کہا ہے کہ مجوزہ قانون نے قبضہ کرنے والی ظالمانہ حکومت کی طاقت کے طور پر کام کیا۔ اور اب اس قانون کو سیاسی اختلاف رائے کو کچلنے اور شہریوں کو بغیر کسی سوال کے اپنے تابع کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے گزشتہ دنوں پشتون تحفظ تحریک (پی ٹی ایم) کے مظاہرین پر بغاوت کے قانون کے اطلاق پر ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے تھے کہ کسی کے محب وطن ہونے پر انتظامیہ کیسے شک کر سکتی ہے؟

وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے بھی ٹوئٹر پر بغاوت کے قانون سے متعلق اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ سابقہ قبائلی علاقوں میں نافذ ایف سی آر کے قوانین ہوں یا بغاوت کے قانون کا اطلاق آزاد اور جمہوری ریاست میں ایک تاریخی غلطی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ نوآبادیاتی دور کے ان قوانین کا مقصد یہاں آباد باشندوں کو کنٹرول کرنا اور اپنا غلام بنائے رکھنا تھا۔

انسانی حقوق کے رہنما بھی بغاوت کے اس قانون کو شخصی آزادیوں سے متصادم قرار دیتے ہیں۔ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق پاکستان کے سابق سربراہ جسٹس (ر) علی نواز چوہان کہتے ہیں کہ ریاست کے خلاف اسلحہ اٹھانا تو جرم ہو سکتا ہے لیکن حکومت کے خلاف بات کرنا، حکومتی پالیسیوں پر احتجاج کرنا بغاوت قرار نہیں دیا جا سکتا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہ یہ نو آبادیاتی قانون ہے اور اکثر حکومتیں اسے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کرتی ہیں۔ لہذا قانون کو مکمل ختم کرنے کی بجائے اس کے غلط استعمال سے متعلق خدشات کو دور کیا جانا چاہیے۔

جسٹس (ریٹائرڈ) علی نواز چوہان نے کہا کہ بغاوت کے قانون کا مکمل خاتمہ نہیں ہونا چاہیے۔ البتہ ترامیم کے ذریعے یہ وضاحت ہو جانی چاہیے کہ اس قانون کا غلط استعمال نہ ہو سکے۔

قانونی ماہرین کا بھی کہنا ہے بغاوت قانون کی دفعہ 124-اے جمہوری ریاستوں میں قابل قبول نہیں اور ایسی دفعات آزادی اظہار رائے پر پابندی کے زمرے میں آتی ہیں۔

بیرسٹر محمد علی سیف کہتے ہیں کہ متحرک جمہوریت میں حکومت پر عدم اعتماد اور تنقید مضبوط عوامی مباحثے کا لازمی جزو ہیں اور اسے بغاوت کے طور پر نہیں بنایا جانا چاہیے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مجوزہ قانون میں ترمیم کا مقصد یہ ہے کہ حکومت مخالف احتجاج یا تحریکوں کو بغاوت کے زمرے سے نکالا جائے جس سے وہ اتفاق کرتے ہیں۔

سینیٹر محمد علی سیف کہتے ہیں کہ بغاوت ایک سنگین جرم ہے جو کہ ریاست کی نظریاتی فکری اساس پر حملے یا عدم استحکام پیدا کرنے کی صورت تو ہوسکتا ہے۔ لیکن حکومت کے خلاف احتجاج کو بغاوت تصور کرنا شخصی آزادیوں پر قدغن ہے اور اس سے انسانی حقوق کی پامالی کا اندیشہ بھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ریاست اور حکومت میں واضح فرق رکھا جانا چاہیے۔ ریاست کو نقصان پہنچانے کی کوئی کوشش قابل معافی نہیں ہونی چاہیے۔

پاکستان میں پشتون تحفظ تحریک کے مظاہرے کے دوران گزشتہ دنوں درجنوں افراد کے خلاف بغاوت کے مقدمات قائم کیے گئے تھے۔ (فائل فوٹو)

بغاوت کا قانون کیا ہے؟

تعزیرات پاکستان میں بغاوت کے قانون کا احاطہ پاکستان پینل کوڈ کے چھٹے باب میں کیا گیا ہے۔ ریاست کے خلاف جرائم سے متعلق اس باب میں پاکستان کے خلاف جنگ کرنے، ایسی کوشش یا ایسی کوشش کی اعانت کی سزا موت یا جرمانے کے ساتھ عمر قید رکھی گئی۔ حتیٰ کہ، اگلی شق میں ایسی کسی سازش کو بھی قابل تعزیر جرم قرار دے کر کم از کم دس سال قید کی سزا مقرر کی گئی ہے، جبکہ زیادہ سے زیادہ سزا اس جرم میں بھی عمر قید ہے۔

اسی طرح، اس سے اگلی دفعہ میں پاکستان کے خلاف جنگ کے ارادوں پر بھی قید اور جرمانے کی سزا مقرر ہے۔ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 123 اے کے تحت قیام پاکستان کی مذمت کرنے اور اس کی خود مختاری کے خاتمے کی وکالت کو بھی جرم قرار دیا گیا ہے، جبکہ پاکستانی پرچم کے تقدس کو پامال کرنے، یا اسے غیر قانونی طور پر سرکاری عمارتوں سے اتارنے پر بھی تین سال قید کی سزا رکھی گئی ہے۔

اسی باب میں صدر پاکستان اور صوبوں کے گورنروں کو اپنے اختیارات کے استعمال سے روکنے کی نیت سے حملے، پاکستان کے دوست ملک کے خلاف اعلان جنگ، جنگی قیدیوں کو رضاکارانہ طور پر بھاگنے کی اجازت دینے جیسے سنگین جرائم پر سزائیں مقرر کی گئی ہیں۔

لیکن، جس اہم نکتے پر آوازیں اٹھ رہی ہیں وہ پینل کوڈ کی دفعہ 124 اے ہے، جس کے تحت قانونی طور پر قائم کی گئی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے خلاف بیانیہ، تحریری یا کسی اور طریقے سے نفرت یا توہین کرنے، ان حکومتوں کے خلاف عدم اطمینان ظاہر کرنے اور دشمنی کے کھلے اظہار کو بھی قابل تعزیر جرم قرار دیا گیا ہے۔ اس کی سزا عمر قید سے لے کر تین سال قید اور جرمانہ رکھا گیا ہے۔

بغاوت کا یہ قانون لانے والی برطانوی حکومت نے اپنے ملک میں اس قانون کا نفاذ ختم کردیا ہے تاہم بھارت کے قانون میں یہ شق اب بھی موجود ہے۔