راولپنڈی شہر میں کرکٹ شائقین ہمیشہ سے ہی پرجوش رہے ہیں۔ یہاں تو گلی محلوں میں بھی میچز ہوں تو لوگوں کا ایک ہجوم دیکھنے کے لیے جمع ہو جاتا ہے۔
19جنوری 1992 کا تاریخی دن تھا جب ہم معمول کے مطابق کالج پہنچے تو کالج میں حاضری خلافِ معمول بہت کم تھی۔
اس غیراعلانیہ تعطیل پر پہلے تو حیران ہوئے لیکن گراؤنڈ کے قریب کچھ دوستوں کو دیکھا تو وہ کہیں جانے کی تیاری کررہے تھے۔ معلوم ہوا کہ آج نئے تعمیر ہونے والے 'پنڈی کرکٹ اسٹیڈیم' میں پاکستان اور سری لنکا کا پہلا میچ ہونے جا رہا ہے۔
پہلی بار براہ راست کرکٹ دیکھنے کے خیال نے ہی خوشی سے سرشار کر دیا۔ گھر اطلاع دیے بغیر دوستوں کے ساتھ شمس آباد کے قریب پنڈی کرکٹ اسٹیڈیم روانہ ہو گئے۔
اسٹیڈیم کے قریب پہنچے تو ہزاروں کی تعداد میں نوجوان باہر موجود تھے۔ اس قدر دھکم پیل کے ٹکٹ کاؤنٹر کے قریب جانا بھی مشکل دکھائی دے رہا تھا۔
اس وقت اپنے ارمانوں پر اوس پڑتی ہوئی نظر آئی جب باہر 50 روپے والا ٹکٹ 100 روپے میں بلیک میں فروخت ہونے کا انکشاف ہوا۔ اس وقت جیب خرچ بھی بہت کم تھا کہ مہنگا ٹکٹ خرید سکتے۔
ابھی سوچ ہی رہے تھے کہ گھر کو واپس نکلیں اور ٹی وی پر میچ دیکھ کر خوش ہوں کہ ایک دوست نے بازو سے پکڑا اور اسٹیڈیم کے عقبی حصے کی جانب لے گیا۔ انکشاف ہوا کہ موصوف میچ دیکھنے کا بندوبست کر چکے ہیں۔
اچانک میرے دوست نے وہاں موجود ایک شخص سے کہا کہ 3 لوگ ہیں۔ اس نے کہا نکالو 30 روپے، رقم دی تو اس نے آواز لگائی پھینک دو۔
حیرانی سے اوپر دیکھا تو ایک مضبوط رسی نظر ائی جس کو اوپر سے دو نوجوان کھینچ رہے تھے۔ پندی بوائز کا یہ اسٹائل مختلف لگا لیکن انہوں نے کہا رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور جیسے ہی پکڑا۔ اوپر موجود افراد نے مجھے کھینچ لیا۔ پھر کیا تھا پنڈی کرکٹ اسٹیڈیم کا وسیع و عریض گراؤنڈ نظروں کے سامنے تھا۔ اور میچ شروع ہونے والا تھا۔
بین الاقوامی کرکٹ میچ اسٹیڈیم میں بیٹھ کر دیکھنے کا یہ پہلا موقع تھا جو دس روپے کے عوض ممکن ہوا۔ ٹکٹ لے کر بھی کچھ لوگ اسٹیڈیم کے باہر تھے جبکہ ہم جیسے 'پنڈی بوائز' کے تعاون سے اسٹیڈیم کے اندر پہنچ چکے تھے۔
پاکستان نے پہلے بیٹنگ شروع کی، انضمام الحق کریز پر موجود تھے کہ اسٹیڈیم کے باہر موجود افراد نے اندر آنے کی بھرپور کوشش کی جس کو روکنے کے لیے پولیس نے بے دریغ لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ شروع کر دی۔
دھواں اس قدر زیادہ تھا کہ میچ کو روکنا پڑ گیا اور کچھ دیر کے بعد آنسو گیس کا اثر ختم ہونے پر میچ دوبارہ شروع ہوا۔
سری لنکا کی ٹیم اس صورتِ حال پر کچھ پریشان نظر آئی لیکن تمام کھلاڑیوں نے بھرپور انداز میں یہ میچ کھیلا۔ اس میچ میں پاکستان کے دو بلے بازوں، انضمام الحق اور سلیم ملک نے سینچریاں اسکور کیں. آئی لینڈرز کی طرف سے صرف ہشان تلکا رتنے ہی نے سب سے زیادہ 36 رنز بنائے۔
اس میچ کی ہر اننگز کے دوران لگنے والے چوکے، چھکے اور پاکستان کی طرف سے حاصل کردہ ہر وکٹ پر اسٹیڈیم میں موجود ہر شخص کا جوش آج بھی آنکھوں کے سامنے ہے۔ بعد میں متعدد بار اسٹیڈیمز میں جا کر میچ دیکھنے کا موقع ملا لیکن جو مزا اس میچ کے دوران آیا، شاید دوبارہ نہ آ سکے۔
راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم کا شمار پاکستان کے 14ویں بین الاقوامی طرز کے کرکٹ گراؤنڈ میں ہوتا ہے۔ یہاں ڈے نائٹ میچ کے لیے فلڈ لائٹس بھی نصب ہیں۔
وفاقی دارالحکومت، اسلام آباد سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر راولپنڈی کے نواحی علاقے شمس آباد میں واقع یہ گراؤنڈ راولپنڈی کلب گراؤنڈ کے نام سے مشہور تھا۔
1987 کے عالمی کپ کے بعد یہاں جدید سہولیات سے آراستہ اسٹیڈیم کی تعمیر شروع ہوئی جو 1992 میں مکمل ہوئی۔ پنڈی اسٹیڈیم میں 28 ہزار تماشائیوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔
پاکستان، بھارت اور سری لنکا میں کھیلے گئے 1996 کے عالمی کپ کے تین میچز کی میزبانی پنڈی کرکٹ اسٹیڈیم کو ملی۔ تینوں میچ جنوبی افریقہ کی ٹیم نے مخالف ٹیموں کے خلاف کھیلے اور کامیابی حاصل کی۔ مجموعی طور پر پاکستان کرکٹ ٹیم کا ریکارڈ اس گراؤنڈ میں اتنا اچھا نہیں رہا۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کھلاڑیوں محمد رمضان، اظہر محمود، یونس خان، شعیب اختر، سید علی عروج نقوی، محمد زاہد، محمد آصف، آسٹریلیا کے کولن ریڈ ملر، ویسٹ انڈیز کے فیلو ویلس اور بھارت کے رمیش پوار نے یہاں سے اپنے ٹیسٹ کیریئر کا آغاز کیا۔
اس اسٹیڈیم میں متعدد میچز کی کوریج کرنے والے اسپورٹس جرنلسٹ شہریار خان کہتے ہیں کہ راولپنڈی، اسلام آباد کے شہری ایک عرصہ سے بین الاقوامی میچز دیکھنے سے محروم تھے۔
البتہ سیکیورٹی کے سخت انتظامات شہریوں کے لیے مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔ پولیس اور سیکیورٹی حکام نے اسٹیڈیم روڈ کو تو بند کیا ہی ہے اس کے ساتھ مری روڈ کو بھی بند کیا جارہا ہے۔ شہریار خان کا کہنا تھا کہ میچ دیکھنے کے لیے آنے والوں کی پارکنگ شکرپڑیاں کے قریب کی جارہی ہے جس کی وجہ سے شائقین کو مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔
البتہ راولپنڈی کی انتظامیہ کا یہ موقف ہے کہ تمام تر انتظامات کھلاڑیوں اور شائقین کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔