حکومت نے مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیر قانون پنجاب رانا ثنااللہ کا کیس سننے والے جج کا تبادلہ کر دیا ہے، جب کہ جج کا کہنا ہے کہ اُنہیں دوران سماعت واٹس ایپ پیغام کے ذریعے تبادلے کا بتایا گیا جس کے بعد وہ رانا ثنااللہ کا کیس نہیں سن سکتے۔
رانا ثنااللہ منشیات اسمگلنگ کیس میں گرفتار ہیں اور اُن کے مقدمے کی سماعت لاہور کی انسداد منشیات کی عدالت کے جج مسعود ارشد کر رہے تھے۔
وزارت قانون و انصاف نے ایک نوٹی فکیشن جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ انسداد منشیات عدالت میں تعینات جج مسعود ارشد کی خدمات لاہور ہائیکورٹ کو واپس کی جائیں۔
نوٹی فکیشن کے مطابق، متعلقہ پوسٹ کے لیے قابل جج صاحبان کے نام دیے جائیں جب کہ نوٹی فکیشن میں مزید دو ججز ڈسٹرک اینڈ سیشن جج مشتاق الٰہی اور ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محمد نعیم ارشد کے تبادلے کے بھی احکامات ہیں۔
جج مسعود ارشد احتساب عدالت میں مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف، پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز اور مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کے مقدمات کی بھی سماعت کر رہے تھے۔
بدھ کو رانا ثنااللہ کے خلاف منشیات اسمگلنگ کیس کی سماعت کے دوران جج مسعود ارشد نے کہا کہ اُنہیں ابھی واٹس ایپ پر پیغام ملا ہے کہ اُن کی خدمات لاہور ہائی کورٹ کو واپس کر دی گئی ہیں اور وہ بطور جج انسداد مشیات عدالت اب کام نہیں کر سکتے۔
جج نے کہا کہ اگر اُن کی خدمات واپس نہ ہوتیں تو انہوں نے رانا ثنااللہ کے کیس کا فیصلہ آج کر دینا تھا۔
جج مسعود ارشد نے مزید کہا کہ "میں اللہ کو جواب دہ ہوں۔ زندگی میں ہمیشہ انصاف کے لیے کام کیا ہے۔ میرے لیے یہ معنی نہیں رکھتا کہ رانا ثنااللہ ہے یا کوئی اور صرف اللہ کو جواب دہ ہوں۔ وزات قانون و انصاف نے میری خدمات واپس کردی ہیں اور اِس کیس کی مزید سماعت نہیں کر سکتا۔"
عدالت نے کیس کی سماعت سات ستمبر تک کے لیے ملتوی کر دی۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے کے مطابق، جج مسعود ارشد کی گفتگو سننے کے بعد اے این ایف کے پراسکیوٹر مسکرائے، جبکہ رانا ثنااللہ کے وکلا نے کہا کہ واٹس ایپ پر ہدایات آنا زیادتی ہے جو اُن کے لیے تکلیف دہ ہے۔
جج کے بیان کے بعد رانا ثنااللہ کمرہ عدالت میں کھڑے رہے اور اپنی گردن جھکا لی، جس کے بعد پولیس اہکاروں نے اُنہیں گھیر لیا اور کمرہ عدالت سے باہر لے آئے۔
پیشی کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے رانا ثنااللہ نے کہا کہ اِس وقت پوری قوم کشمیر کی آزادی کے لیے اور مظلوم کشمیروں کے معاملے پر متحد ہے۔ لیکن، حکومت حزب اختلاف کی جماعتوں کے خلاف انتقامی کارروائیوں میں مصروف ہے۔
رانا ثنااللہ کے بقول، ’’حکومت نے آج انصاف کا جنازہ نکال دیا ہے‘‘۔ جج مسعود ارشد کے تبادلے کے سوال پر رانا ثناءاللہ نے کہا کہ جج دلائل سن رہا تھا۔ اُسے ایک گھنٹے کا وقت دیا گیا جسے وزارت قانون نے ایک گھنٹے میں نوٹس دے دیا کہ آپ یہ کیس نہیں سن سکتے۔
رانا ثناءاللہ سے دوران گفتگو پولیس اہلکار مسلسل صحافیوں کو دھکے دیتے رہے اور جب بھی وہ بولنے کی کوشش کرتے تو وہ شور مچا دیتے، تاکہ اُن کی گفتگو کی آواز صحافیوں کے موبائل کیمروں تک نہ پہنچ سکے۔
سپریم کورٹ کے وکیل سلمان منصور کہتے ہیں کہ واٹس ایپ پر پیغام آنا ایک ناول کی بات لگتی ہے۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ زبانی آرڈر یا واٹس ایپ آرڈر کوئی چیز نہیں ہوتی۔ البتہ، ایسا ضرور ہو سکتا ہے کہ اُنہیں تبادلے کے نوٹی فکیشن کی کاپی واٹس ایپ کی گئی ہو۔
سلمان منصور کے بقول، جوڈیشل سروسز اور حکومتی کام میں واٹس ایپ آرڈر کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ جوڈیشل سروسز میں تو یہ لازمی ہے کہ سیشن جج تحریری طور پر ٹرانسفر آرڈر پاس کرے گا۔
رانا ثنااللہ کیس میں فریقین وکلا کے دلائل
یاد رہے کہ اینٹی نارکوٹکس فورس (اے این ایف) لاہور کی ٹیم نے یکم جولائی کو رانا ثنااللہ کو لاہور کے قریب سے منشیات اسمگل کرنے کے جرم میں گرفتار کیا تھا۔
اے این ایف نے رانا ثنااللہ کی گاڑی سے 21 کلو سے زائد منشیات برآمد کرنے کا دعویٰ کیا جس میں مبینہ طور پر 15 کلو ہیروئن بھی شامل ہے۔ اے این ایف کی جانب سے رانا ثناءاللہ کے خلاف درج کرائی گئی ایف آئی آر میں نائن سی، سی این ایس اے 1997 کی 353 پی پی سی اور دیگر دفعات شامل کی گئی ہیں۔
رانا ثنااللہ کے خلاف انسداد منشیات کی خصوصی عدالت میں سماعت کے دوران ان کے وکلا اعظم نذیر تارڑ اور زاہد بخاری نے عدالت کو بتایا کہ اُن کے موکل کو جھوٹے کیس میں پھنسایا گیا ہے، جس کی ایف آئی آر پڑھ کر ہنسے بغیر نہیں رہا جا سکتا۔
وکیل اعظم نذیر تارڑ نے عدالت سے کہا کہ رانا ثنااللہ کی گرفتاری کے بعد وفاقی وزیر نے پریس کانفرنس میں کہا کہ فوٹیج موجود ہے۔ لیکن ابھی تک صرف گاڑی موٹر وے میں داخل ہوتے وقت کی ویڈیو ہی دکھائی گئی ہے اور اب کہا جا رہا ہے کہ ساری جائیداد منشیات کے پیسے سے بنائی گئی ہے۔
رانا ثنااللہ کے وکیل زاہد بخاری نے مؤقف اختیار کیا کہ یہ سارا کیس ہی بدنیتی پر مبنی ہے۔اے این ایف کہتی ہے کہ گاڑی کے دروازے اُن کی ٹیم نے کھولے جو ہو نہیں سکتا۔ کیونکہ رانا ثنااللہ بلٹ پروف گاڑی میں تھے جس کے دروازے صرف اندر سے ہی کھل سکتے ہیں۔
زاہد بخاری نے کہا کہ موقع پر منشیات برآمدگی کی رپورٹ نہیں بنائی گئی بلکہ تھانے جا کر تیار کی گئی، جبکہ قانون کے مطابق برآمدگی کی رپورٹ موقع پر بنانا ضروری ہے۔
رانا ثنااللہ کے وکلاء کے دلائل ختم ہونے پر اے این ایف کے پراسیکورٹر راجہ انعام منہاس اور رانا کاشف سلیم نے عدالت سے درخواست کی کہ اُنہیں کیس کی تیاری کے لیے ایک گھنٹے کا وقت دیا جائے، جس پر عدالت نے کیس کی سماعت میں ایک گھنٹے کا وقفہ کیا۔