پاکستان کے شمال مغرب میں مختلف مذہبی و سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والوں نے رواں ماہ توہین مذہب کے الزام میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں طالب علم مشال خان کی ہلاکت کی مذمت تو کی ہے لیکن ساتھ ہی انھوں نے اس واقعے کی تحقیقات میں شفافیت پر زور دیتے ہوئے ان کے بقول معصوم لوگوں کی پکڑ دھکڑ روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔
اسی سلسلے میں ہزاروں افراد نے مردان میں "حب رسول" کے عنوان سے ایک ریلی نکالی جس میں سیاسی و مذہبی جماعتوں کے کارکنوں کے علاوہ مقامی لوگ بھی شریک تھے۔
شرکا نے اس دوران توہین مذہب کے قانون کے حق میں نعرے بازی کرتے ہوئے کہا کہ اس قانون میں کسی طرح کی ترمیم برداشت نہیں کی جائے گی۔
عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مشال خان کو اسی یونیورسٹی کے مشتعل طلبا نے توہین مذہب کے الزام میں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
پولیس نے اس واقعے کی تحقیقات کے بعد بتایا تھا کہ ایسے کوئی شواہد نہیں ملے جس سے یہ ثابت ہو کہ مشال خان توہین مذہب کا مرتکب ہوا۔
اب تک پولیس نے درجنوں افراد کو گرفتار کیا ہے جن میں یونیورسٹی کے طلبا اور عملے کے ارکان بھی شامل ہیں۔
ریلی میں شریک خیبر پختونخواہ کی صوبائی اسمبلی کے سابق ڈپٹی اسپیکر اکرام اللہ شاہد نے وائس آف امریکہ کو سے گفتگو میں دعویٰ کیا کہ پولیس نے بہت سے لوگوں کے خلاف کارروائی اور "نہ صرف مشتبہ لوگوں کے خلاف بلکہ ان کے اہل خانہ کے خلاف بھی کارروائی کی گئی۔"
تاہم پولیس حکام اس معاملے میں جانبداری کے دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس واقعے میں ملوث 49 افراد کی نشاندہی ہوئی تھی جن میں سے 47 کو گرفتار کیا جا چکا ہے جب کہ دو قبائلی علاقوں میں روپوش ہیں جن کی گرفتاری کے لیے کوششیں جاری ہیں۔
مشال خان کی ہلاکت کے معاملے کی نہ صرف پاکستان بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی مذمت کی گئی تھی اور ساتھ ہی ایسے مطالبات میں بھی اضافہ ہوا کہ توہین مذہب کا غلط الزام لگانے والوں کے لیے بھی سخت قانون بنایا جانا چاہیے۔