روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے پیر کے روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کو بتایا کہ شامی صدر بشار الاسد کی مسلح افواج ’بہادری کے ساتھ دہشت گردی کا مقابلہ کر رہی ہیں‘؛ اور یہ کہ اُن کے ساتھ تعاون سے انکار کرنا ’ایک بڑی غلطی ہوگی‘۔
عالمی ادارے سے خطاب میں پیوٹن نے کہا کہ ’ہمیں بالآخر یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ شام میں صدر اسد کی مسلح افواج اور (کرد) ملیشیا داعش اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے خلاف لڑ رہی ہیں‘۔
امریکی صدر براک اوباما نے پیر کے روز جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے، صدر اسد کی مذمت کی۔ اُنھوں نے کہا کہ اسد اپنے ہی لوگوں کے اوپر بیرل بم برساتا ہے، اور اُن کی حکمرانی کے خلاف ایک عبوری دور کا مطالبہ کیا۔
پیوٹن نے انسداد دہشت گردی کا ایک وسیع تر بین الاقوامی اتحاد تشکیل دینے پر زور دیا؛ جسے اُنھوں نے جنگ عظیم دوئم کے دوران ہٹلر کے خلاف اتحاد سے تعبیر کیا۔
اُنھوں نے اقوا متحدہ میں ایک قرارداد پیش کرنے کی تجویز دی جس کا مقصد تمام فورسز کی کارروائیوں پر رابطہ رکھنا ہے، جو دولت اسلامیہ اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے خلاف لڑ رہی ہیں۔
پیوٹن نے شام میں ’معتدل‘ باغیوں کو اسلحے کی فراہمی پر مغرب پر نکتہ چینی کی، جن کے لیے اُن کا کہنا تھا کہ وہ داعش کے شدت پسند گروپ کے دھڑوں کے ساتھ مل جاتے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ داعش کا گروہ کہیں باہر سے نہیں آیا بلکہ، بقول اُن کے، ابتدا میں ناپسندیدہ سیکولر حکومتوں کے خلاف آلہ کار کے طور پر اُسے تشکیل دیا گیا۔
وسیع تناظر میں، روسی لیڈر نے امریکہ اور اُس کے مغربی اتحادیوں کی خارجہ پالیسی پر تنقید کی، جس میں، بقول اُن کے، مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں نام نہاد جمہوری انقلابات بھی شامل تھے۔ اس ضمن میں، پیوٹن نے خاص طور پر عراق اور لیبیا کی مثال پیش کی۔