پاکستان کے صوبہ پنجاب سمیت مرکزی شہر لاہور میں کرونا وبا سے متاثرہ کیسز کی تعداد میں کمی تو دیکھنے میں آ رہی ہے تاہم موسمِ گرما کے اختتام کے بعد شہر میں ڈینگی کے کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے۔
صوبائی سیکرٹری محکمہ پرائمری اینڈ سکینڈری ہیلتھ کیئر پنجاب کے مطابق صوبے بھر میں ڈینگی سے بچاؤ کی انسدادی سرگرمیاں تیز کر دی گئی ہیں۔
تاہم صوبے بھر میں ڈینگی کیسز میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے اور گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران پنجاب میں ڈینگی کے 440 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
ان کیسز میں سے 347 کا تعلق لاہور سے ہے جب کہ دو افراد ڈینگی کی وجہ سے جان کی بازی بھی ہار گئے۔ جن میں سے ایک لاہور سے تھا۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران محکمہ صحت کی ٹیموں نے لاہور میں 59 ہزار 471 ان ڈور اور آٹھ ہزار 939 آؤٹ ڈور مقامات کا جائزہ لیا جب کہ 731 ان ڈور اور آؤٹ ڈور مقامات سے ڈینگی لاروا بھی تلف کیے گئے۔
اعداد و شمار کے مطابق رواں برس پنجاب بھر سے اب تک ڈینگی کے 20 ہزار 112 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ جن میں سے 14 ہزار 872 کیسز لاہور سے سامنے آئے ہیں۔
خیال رہے کہ پنجاب میں ڈینگی سے اب تک 83 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
پنجاب کی وزیرِ صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کے ترجمان سید حماد رضا کا کہنا ہے کہ ڈینگی ایک موسمی وبا ہے اور بنگلہ دیش اور سری لنکا جیسے دیگر ممالک بھی اس پر قابو پانے میں نا کام رہے ہیں۔
دوسری جانب سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے سابق مشیر برائے صحت خواجہ سلمان رفیق کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت ڈینگی پر قابو پانے کے لیے وسائل کا استعمال نہیں کر رہی۔
'ڈینگی کے باعث اموات میں اضافہ ہو سکتا ہے'
سید حماد رضا کا کہنا تھا کہ ممکنہ طور پر سردی میں اضافے اور درجہ حرارت کے 13 ڈگری سینٹی گریڈ سے نیچے تک جانے کے بعد ڈینگی سے متاثرہ کیسز میں کمی آنا شروع ہو گی۔
دوسری طرف سلمان رفیق کا کہنا تھا کہ جب وبا اختتام کی طرف جا رہی ہوتی ہے تو اموات بڑھ جاتی ہیں۔
ان کے مطابق رواں ماہ نومبر میں ڈینگی کے باعث اموات میں اضافہ ہو سکتا ہے جس کی وجہ ڈینگی کے مریضوں کی صحیح دیکھ بھال نہ ہونا ہو سکتی ہے۔
اطلاعات کے مطابق لاہور میں، بخار کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی دوا پینا ڈول کی شدید قلت دیکھی جا رہی ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ اسے ڈینگی اور وائرل بخار کے دوران استعمال کیا جا رہا ہے۔
تاہم وزیرِ صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد نے پینا ڈول کی قلت کی اطلاعات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ پینا ڈول کی 32 اعشاریہ چار ملین گولیاں تقسیم کی گئی ہیں۔
ان کے مطابق پینا ڈول کی مزید 21 اعشاریہ پانچ ملین گولیاں لاہور میں تقسیم کی جائیں گی۔
'ڈینگی پر قابو پانا اور کمی لانا دو مختلف چیزیں ہیں'
سعید حماد رضا کے مطابق وزیرِ صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کی سربراہی میں پنجاب کابینہ کی باقاعدگی سے ملاقاتیں ہوتی ہیں اور وزیر اعلی پنجاب بھی ڈینگی سے متعلق اقدامات پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں۔
وزیرِ صحت کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ڈینگی پر قابو پانے کے لیے لاہور میں تمام اسٹیلک ہولڈرز جیسے ڈی ایچ اے، واپڈا ٹاؤن، کنٹونمنٹ سمیت دیگر سوسائٹیز کے ساتھ ڈینگی لاروا تلف کرنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
حماد رضا کے بقول ڈینگی پر قابو پانا اور کمی لانا دو مختلف چیزیں ہیں اور حکومت مچھر پیدا نہیں کرتی۔ ڈینگی پر قابو کرونا کی طرح احتیاط کر کے ہی پایا جا سکتا ہے۔ جس کا روزانہ کی بنیاد پر جائزہ کیا جاتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کا مزید کہنا تھا کہ وزیر صحت کی سربراہی میں ڈینگی پر اب تک 17 ملاقاتیں ہو چکی ہیں جن میں محکمۂ صحت کے اقدامات کا جائزہ لیا گیا ہے۔
ماضی میں حکومت نے ڈینگی پر کیسے قابو پایا؟
پنجاب کے سابق وزیرِ اعلیٰ شہباز شریف کے ساتھ بطور مشیر صحت خدمات سر انجام دینے والے خواجہ سلمان رفیق کا کہنا ہے کہ سن 2011 میں ڈینگی کے کیسز سامنے آنے کے بعد ان کی حکومت ہر سال جنوری سے ہی ڈینگی پر قابو پانے کے لیے اقدامات کرنا شروع کر دیتی تھی۔
سلمان رفیق کے مطابق وہ سب سے پہلے شہر کی آبادی اور حجم کے اعتبار سے بھرتیاں کرتے تھے۔ جنہیں مستقل بنیادوں پر اپنے ساتھ رکھا جاتا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈینگی لاروا تلف کرنے کے لیے ہر سال عالمی ادارہ صحت کی تجویز کردہ ادویات درآمد کی جاتی تھیں۔
'موجودہ حکومت کا محلے کے ڈاکٹروں کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں'
خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کا محلے کے ڈاکٹروں کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہے اور نجی اسپتال بھی محکمہ صحت کے ڈیش بورڈ پر کوئی اپ ڈیٹ نہیں کر رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک کیس مثبت آنے پر اسے رپورٹ نہیں کیا جا رہا جس کی وجہ سے وہ پورا محلہ ڈینگی سے متاثر ہو جاتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ڈینگی پر قابو پانے میں پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کا کردار
خواجہ سلمان رفیق کا کہنا تھا کہ ڈینگی پر قابو پانے میں پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ (پی آئی ٹی بی) کا کلیدی کردار تھا۔
ان کے بقول اس مقصد کے لیے پنجاب میں موجود ہزاروں کی تعداد میں اینڈرائیڈ موبائل فونز کا استعمال کیا گیا تھا جو ہر سرکاری محکمے کے پاس موجود تھے۔ ہر محکمہ کی ایکٹیوٹی اس ڈیش بورڈ پر آ رہی ہوتی تھی کہ لاروا کہاں سے مل رہا ہے۔