پاکستان میں گزشتہ برسوں کی طرح اس سال بھی ڈینگی کا مرض پھیل رہا ہے اور صوبۂ پنجاب اس وقت سب سے زیادہ متاثر ہے جہاں مریضوں کی تعداد پانچ ہزار سے زائد ہو چکی ہے۔
پنجاب حکومت کے مطابق اس وقت بھی پنجاب کے مختلف اسپتالوں میں ڈینگی کے 1300 سے زائد مریض موجود ہیں تاہم صورتِ حال اس وقت قابو میں ہے۔
خیبر پختونخوا میں بھی ڈینگی کے کیسز کی تعداد میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے اور اب تک کی اطلاعات کے مطابق صوبے بھر میں کیسز کی تعداد ڈھائی ہزار سے زائد ہو چکی ہے۔
خیبر پختونخوا میں سب سے زیادہ متاثرہ شہر پشاور ہے جہاں سات سو سے زائد افراد اس کا شکار ہو چکے ہیں۔ بونیر، خیبر، صوابی اور نوشہرہ بھی متاثرہ علاقوں میں شامل ہیں جہاں اب تک سیکڑوں کیسز سامنے آئے ہیں۔
سرکاری اطلاعات کے مطابق خیبر پختونخوا میں اب تک ڈینگی سے چار مریض دم توڑ چکے ہیں۔
سندھ میں ڈینگی کے کیسز کی تعداد میں کمی آرہی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ستمبر میں کیسز کی تعداد 625 تک پہنچ گئی تھی جو اب اکتوبر میں کم ہو کر 229 تک آگئی ہے۔
کراچی میں کیسز کی تعداد سب سے زیادہ ہے جب کہ حیدرآباد، مٹیاری اور تھرپارکر میں ڈینگی کے کچھ کیسز رپورٹ ہوئے لیکن مجموعی طور پر صورتِ حال بہتر ہے۔
ڈینگی سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبۂ پنجاب کے سیکرٹری صحت عمران سکندر بلوچ کے مطابق صرف جمعرات سے جمعے کے درمیان رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعداد 231 ہے جس میں سب سے زیادہ کیسز لاہور میں رپورٹ ہوئے۔
لاہور میں ڈینگی کے 146 مریض سامنے آئے ہیں جب کہ دوسرے نمبر پر راول پنڈی شہر ہے جہاں 39 کیسز رپورٹ ہوئے۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ کرونا اور ڈینگی کا بیک وقت سامنا ہے لیکن دونوں بیماریوں کے پھیلاؤ میں کمی آرہی ہے اور نظام صحت پر کوئی دباؤ نہیں ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں گزشتہ کئی سالوں سے ڈینگی مچھر کے کاٹنے سے ڈینگی مرض ہر سال خزاں کے موسم میں پھیلتا ہے۔ حبس زدہ موسم میں مچھروں کی افزائش بڑھ جاتی ہے اور اس بیماری کی شدت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ موسم سرد ہونے اور 15 ڈگری سینٹی گریڈ سے درجہ حرارت کم ہونے پر نومبر کے مہینے میں اس مرض کا خاتمہ ہوجاتا ہے لیکن اس دو سے تین ماہ کے عرصے میں ہی ہزاروں افراد اس کا شکار بن جاتے ہیں۔
پنجاب میں کیسز کی بڑھتی تعداد کے حوالے سے پنجاب کی وزیرِ صحت یاسمین راشد نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ہم ڈینگی کے مرض سے نمٹنے کے لیے کام کر رہے ہیں اور کوشش ہے کہ ڈینگی لاروا کی افزائش نہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ صوبے میں بڑھتے ہوئے ڈینگی کیسز کے بعد اس وبا سے نمٹنے کے لیے صورتِ حال کا باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہیں اور اس سلسلے میں آگاہی پھیلانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔
ڈینگی کی صورتِ حال کے لیے راول پنڈی کے بے نظیر بھٹو اسپتال اور ہولی فیملی اسپتال میں خصوصی وارڈز تشکیل دیے گئے ہیں جن میں 100، 100 سے زائد بیڈز کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔
بے نظیر بھٹو اسپتال کے ڈینگی وارڈ کے انچارج ایڈیشنل ایم ایس ڈاکٹر عنایت الرحمن کا کہنا ہے کہ اس وقت تمام بیڈز پر مریض موجود ہیں اور یومیہ 25 سے 30 نئے مریض آرہے ہیں جب کہ اتنے ہی مریض صحت مند ہو کر گھروں کو جا رہے ہیں۔
ان کے بقول گزشتہ دنوں ہونے والی بارشوں کے بعد درجہ حرارت کم ہونے سے ڈینگی میں بہتری آئی تھی تاہم گرمی کی وجہ سے اس کی شدت میں پھر اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب تک راول پنڈی میں ڈینگی کے باعث کسی بھی مریض کی موت واقع نہیں ہوئی۔
اسلام آباد میں ڈینگی کے پھیلاؤ کے حوالے سے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر زعیم ضیا نے بتایا کہ اسلام آباد میں ڈینگی کے مریضوں کے لیے پمز اسپتال میں خصوصی وارڈز بنا دیے گئے ہیں جہاں زیرِ علاج زیادہ تر مریضوں کی حالت بہتر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر موسم کی شدت میں اضافہ ہوا تو ڈینگی کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوسکتا ہے لیکن ہم اس حوالے سے تیار ہیں۔
جڑواں شہروں میں ڈینگی مچھر کو مارنے کے لیے مختلف مقامات پر مچھر مار اسپرے بھی کیا جا رہا ہے۔ تاہم ڈینگی کا شکار ہونے والے بیشتر مریضوں نے الزام عائد کیا ہے کہ ان کے علاقے میں کسی بھی جگہ مچھر مار اسپرے نہیں کیا گیا۔
ڈینگی بخار کی علامات
ڈینگی وائرس خون کے سفید خلیات پر حملہ کرتا ہے اور انہیں آہستہ آہستہ ناکارہ کرنے لگتا ہے۔ اس مرض میں مریض کے پٹھوں اور جوڑوں میں شدید درد ہوتا ہے اور یہ درد خاص طور پر کمر اور ٹانگوں میں ہوتا ہے۔
اس مرض کی علامات میں تیز بخار کے ساتھ سر میں شدید درد ہونا بھی شامل ہے۔
بخار کے دوران ڈینگی کے مریض پر غنودگی طاری ہو سکتی ہے اور ساتھ ہی اسے سانس لینے میں دشواری کا سامنا بھی ہوسکتا ہے۔
ڈینگی کا وائرس خون کے بہاؤ اور دل کی دھڑکن کو بھی متاثر کرتا ہے اور اس سے فشار خون یعنی بلڈ پریشر اور دل کی دھڑکن بھی متاثر ہوسکتی ہے۔
مریض کو متلی اور قے کی شکایت ہوتی ہے۔ تیز بخار کے بعد جسم پر سرخ نشان پڑجاتے ہیں اور اس کے مسوڑھوں یا ناک سے خون بھی آسکتا ہے۔
ڈینگی بخار کے ابتدائی مرحلے میں جلد پر خراشیں بھی پڑجاتی ہیں اور جلد کھردری ہوکر اترنے لگتی ہے۔ ڈینگی کا مرض مچھر کے ذریعے مریض سے کسی بھی دوسرے شخص کو منتقل ہوسکتا ہے۔