پاکستان میں اس سال عام انتخابات کے بعد برسر اقتدار آنے والی جماعت، پاکستان تحریک انصاف کے بعض اہم رہنماؤں نے جنوبی پنجاب صوبہ سے پہلے اس علاقے کے لیے علیحدہ ’سول سب سیکریٹریٹ‘ کے قیام کا عندیہ دیا ہے۔
لیکن، پی ٹی آئی کی حکومت میں شامل اتحادی جماعت مسلم لیگ قائد اعظم کے سیکریٹری جنرل طارق بشیر چیمہ جنوبی پنجاب کے اہم شہر بہاولپور کو بھی صوبہ بنانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس سے لگ یہ رہا ہے کہ جنوبی پنجاب صوبے کے معاملے پر پاکستان تحریک انصاف کو اپنی مخالف جماعتوں سے پہلے اپنی اتحادی جماعتوں کو بھی اعتماد میں لینا پڑے گا۔
پاکستان تحریک انصاف نے جولائی 2018 کے انتخابات میں اپنے منشور میں جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کا وعدہ کیا تھا اور انتخابات میں پنجاب میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر اسے واضح برتری بھی ملی۔ لیکن، اسے وفاق اور پنجاب میں اس سے دو تہائی اکثریت نہیں مل سکی۔
پی ٹی آئی کو الیکشن سے پہلے بننے والے ’جنوبی پنجاب صوبہ محاذ‘ کی بھی حمایت حاصل ہوئی اور بعد میں یہ محاذ پی ٹی آئی میں ضم ہو گیا اور اس کے کئی اہم رہنما اس وقت کی اہم وزارتوں پر فائز ہیں۔
تحریک انصاف کے سربراہ، عمران خان نے وزیر اعظم بننے کے بعد اپنے 100 دن کے جس پلان کا اعلان کیا تھا اس میں جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کے حوالے سے دو وزرا پر مشتمل ایک کمیٹی بھی قائم کی گئی تھی، جس کی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ صوبے کے قیام کے لئے اتفاق رائے پیدا کرے۔ اسی طرح کی ایک کمیٹی انتظامی حوالے سے پنجاب کی سطح پر بھی قائم کی گئی۔ ان دونوں کمیٹیوں کی رپورٹ ابھی تک سامنے نہیں آئی۔ لیکن، پی ٹی آئی کے بعض اہم رہنما جہانگیر ترین کے بیانات سامنے آئے ہیں جن میں انہوں نے جنوبی پنجاب سیکریٹریٹ کے قیام کے امکان کو ظاہر کیا ہے۔
پی ٹی آئی کی طرف سے جنوبی پنجاب کے قیام کی خواہش اپنی جگہ، لیکن لگتا یہ ہے کہ عمران خان اور تحریک انصاف کو صوبے کے قیام سے پہلے اپنے اتحادیوں کو بھی اعتماد میں لینے کی ضرورت پڑے گی۔ مسلم لیگ قائداعظم کے سیکریٹری جنرل اور وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ کہہ چکے ہیں کہ انہیں جنوبی پنجاب صوبے پر اعتراض نہیں۔ لیکن وہ بہاولپور صوبہ چاہتے ہیں۔
بقول اُن کے، "ہمارا ایک مطالبہ ہے جو آج کا نہیں ہے۔ جنوبی پنجاب سے ہمیں کوئی اختلاف نہیں بنائیں صوبہ۔ ہم کہہ رہے ہیں کہ بیشک دو صوبے بنا دیں جنوبی پنجاب کے ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ ہم تو اپنا کہہ رہے ہیں کہ بہاولپور کو معافی دے دی جائے۔ اسلئے کہ ہم ان وڈیروں کے ساتھ جاگیرداروں کے ساتھ مقابلہ نہیں کر سکتے۔"
سرائیکی علاقے کی قوم پرست تنظیمیں بھی یہ چاہتی ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف اپنے وعدے کو نہ بھولے اور اس یاد دہانی کے لئے ملتان میں کئی سرائیکی تنظیموں نے کئی دن تک ایک کیمپ لگائے رکھا، جس میں پی ٹی آئی کو اس کے 100 دن کا وعدہ یاد کرایا گیا۔ سرائیکی تحریک اور صوبہ ایشو پر نظر رکھنے والے معروف دانشور پروفیسر اکرم میرانی کے خیال میں دو تہائی اکثریت نہ رکھنے کے باوجود تحریک انصاف اگر پہلے ’سول سب سکرٹریٹ‘ قائم کر دیتی ہے، تو یہ بھی صوبے کی طرف ایک اہم پیش رفت ہوگی۔
اُن کے الفاظ میں، "ابھی چونکہ گورنمنٹ کو اتفاق رائے پیدا کرنے میں وقت لگے گا۔ تو یقینی طور پر میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ آگے کی جانب ایک قدم ہے۔ اگر یہ سیکرٹریٹ بنا دیتے ہیں تو ہم توقع کرسکتے ہیں کہ دو تین سال میں یہ صوبے کی طرف بڑھیں گے، کیونکہ ابھی تو ان کی اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ بات چیت شروع نہیں ہوئی، جن کے ساتھ ان کے اچھے تعلقات نہیں ہیں۔ پارلیمنٹ میں اپنی پوزیشن بہتر بنانے میں انھیں تھوڑا وقت لگے گا"۔
اگر پارلیمنٹ میں عددی اکثریت کو سامنے رکھا جائے تو پی ٹی آئی کے لیے یہ نسبتاً آسان لگ رہا ہے کہ وہ صوبے کے قیام سے پہلے کم از کم سیکرٹریٹ کا اعلان کرکے جنوبی پنجاب صوبے کے لیے اپنی سنجیدگی کا اظہار کرسکتی ہے۔