ہانگ کانگ کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ ملزمان کی چین حوالگی کے مجوزہ قانون کو پارلیمینٹ سے منظور کروایا جائے گا۔ جس کے بعد مشتبہ افراد کو عدالتی کارروائی کے لیے چین منتقل کیا جا سکے گا۔
مجوزہ قانون کے خلاف ہانگ کانگ کے شہری سراپا احتجاج ہیں جبکہ مجوزہ قانون کو پارلیمینٹ میں پیش کیے جانے کے موقع پر سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔
خبررساں ادارے رائٹرز کے مطابق لاکھوں افراد ہانگ کانگ میں مجوزہ قانون کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں، پیر کو مظاہرین اور پولیس میں تصادم بھی ہوا ہے۔
مبصرین کے مطابق بڑے پیمانے پر مجوزہ قانون کے خلاف احتجاج نے ہانگ کانگ کو سیاسی بحران کی جانب دھکیل دیا ہے۔ جبکہ مظاہرین مجوزہ بل کی محرک اور ہانگ کانگ کی چیف ایگزیکٹو کیری لام کے استعفے کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں۔
کیری لام کا کہنا ہے کہ وہ مظاہرین کے خدشات دور کرنے کے لیے بل میں مزید ترامیم تجویز کر رہی ہیں جس میں انسانی حقوق کے تحفظ کی شق بھی شامل ہے۔
پیر کو ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے کیری لام نے اس تاثر کو رد کیا کہ وہ چین کے کہنے پر یہ قانون منظور کروانا چاہتی ہیں، انھوں نے بتایا کہ بدھ کو اس بل پر پارلیمینٹ میں دوبارہ بحث کروائی جائے گی۔
مجوزہ بل کی عمومی طور پر حکومت کے حمایتی کاروباری افراد، طلبا، وکلا، مذہبی گروپ اور جمہوریت پسند افراد بھی کھل کر مخالفت کر رہے ہیں۔
ان طبقوں کو خدشہ ہے کہ اس اقدام سے ہانگ کانگ میں عدلیہ کی آزادی متاثر ہو گی، جبکہ چین کے ناقص عدالتی نظام کے ذریعے ملزمان کو انصاف نہ ملنے کی توقع ہے۔
منتظمین کا دعویٰ ہے کہ مجوزہ قانون کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین کی تعداد لگ بھگ دس لاکھ ہے اس سے قبل 2003ء میں داخلی سلامتی سے متعلق قوانین کے خلاف 5 لاکھ افراد سڑکوں پر نکلے تھے۔
ہانگ کانگ پولیس کے مطابق احتجاج کرنے والے مظاہرین کی تعداد دو لاکھ 40 ہزار ہے۔
مجوزہ قانون کے خلاف آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں بھی سیکڑوں افراد نے احتجاجی مارچ کیا ہے۔
برطانیہ کی سابق نو آبادی ہانگ کانگ کو 1997ء میں چین کے حوالے کیا گیا تھا مبصرین کے مطابق حوالگی کے دوران یہ شرائط عائد کی گئیں تھیں کہ یہاں خود مختار عدالتی نظام بھی قائم کیا جائے گا، جبکہ شہری آزادیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی حوصلہ شکنی کی جائے گی۔
انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مجوزہ قانون کو انسانی حقوق کے منافی قرار دیا ہے۔
ایک اعلامیے میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے چین کو یہ موقع ملے گا کہ وہ اختلاف رائے رکھنے والے صحافیوں، وکلا اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں کو سزا دے سکے۔
امریکہ اور یورپی ممالک کے حکام نے بھی صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مجوزہ قانون سے ہانگ کانگ کا عدالتی نظام متاثر ہو گا۔