چین کے نیم خود مختار علاقے ہانگ کانگ میں انسانی حقوق کے وہ سرگرم کارکن جو تیاننمن سکوائر کے احتجاج کی برسی منانے جارہے ہیں نے چین سے مطالبہ کیا ہے کہ اس واقعہ کی سرکاری وضاحت پر نظر ثانی کرے۔
اتوار کو اس واقعہ کی 28 ویں برسی منائی جارہی ہے جب 1989 میں چین نے تیاننمن سکوائر میں جمع جمہوریت نواز مظاہرین کو منشتر کرنے کے ٹینکوں کا استعال کرتے ہوئے ہجوم پر فائرنگ شروع کی دی جس کی وجہ سے سیکڑوں جمہوریت نواز کارکن ہلاک ہو گئے۔ بعض اندازوں کےمطابق اس واقعہ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ہزاروں میں تھی۔
چین کی حکومت اسے چار جون کا واقعہ قرار دیتی ہے اور اس کے شدت کو کم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ درسی کتابوں میں اس واقعہ کا ذکر کرنا اور میڈیا پر کسی طرح کی بحث کرنا ممنوع ہے ۔
تاہم ہانگ کانگ میں سرگرم کارکن ہر سال چار جون کے احتجاج کی یاد مناتے ہیں اور اس واقعہ میں ہلاک ہونے والوں کا سوگ مناتے ہیں۔
چین کی محب وطن تحریک کی حمایت میں ہانگ کانگ کے اتحاد سے وابستہ رچرڈ چوئی نے ہفتے کو نامہ نگاروں کو بتایا کہ گروپ کا کام اس وقت تک "نامکمل رہے گا" جب تک حکومت اس واقعہ کی سرکاری وضاحت پر نظر ثانی نہیں کرتی ہے۔
دوسری طرف بعض افراد کا کہنا ہے کہ وہ چینی شہری جو 1989 کے بعد پیدا ہوئے وہ زیادہ تر تیانیمن سکوائر کے احتجاج سے آگاہ نہیں ہیں تاہم چوئی نے کہا کہ ہانگ کانگ میں طلبا اور دیگر بڑی عمر کے افراد اس واقعہ کی یاد کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
برطانیہ نے ہانگ کانگ کو 1997 میں چین کو واپس کر دیا تھا تاہم اب بھی یہاں تقریر اور اجتماع کی آزادی کی روایتیں موجود ہیں لیکن بعض افراد کا کہنا ہے کہ وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ روایت کمزور ہوتی جارہی ہے۔
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے گزشتہ ہفتے بیجنگ سے اس بات کا مطالبہ کیا تھا کہ وہ تیاننمن اسکوائر میں 1989ء میں احتجاج کرنے والوں کی ہلاکت میں اپنے کردار کو تسلیم کرے اور چینی شہریوں کو اس واقعہ کی یاد منانے کی اجازت دی جائے۔
تنظیم نے چینی راہنماؤں سے ان افراد کو رہا کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے جنہیں ماضی میں اس احتجاج کے بارے میں بات کرنے کی وجہ سے قید میں ڈال دیا گیا تھا۔
تیاننمن اسکوائر کے مظاہرے اپریل 1989 میں چین کے کئی شہروں میں آزادی اظہار کے حق کے حصول اور بدعنوانی کے خاتمے کے مطالبات کے لیے نکالنے گئے پرامن مظاہروں کے بعد شروع ہوئے۔
3 اور 4 جون کو بیجنگ میں پر امن مظاہرین پر فوج نے فائرنگ شروع کر دی اور حکومت نے آتش زنی اور نقض امن کے الزام میں ہزاروں افراد کو گرفتار کر لیا۔