پاکستان کا اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار، عارضی مؤقف یا مستقل پالیسی؟

وزیر اعظم عمران خان نے واضح کیا ہے کہ پاکسان کسی صورت اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا۔

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے واضح کیا ہے کہ پاکستان اسرائیل کو بطور ریاست اس وقت تک تسلیم نہیں کرے گا جب تک وہ فلسطین کو آزادی نہیں دے دیتا۔

وزیر اعظم عمران خان کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب حال ہی میں متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کیے جانے کے بعد پاکستان کے بعض حلقوں کا اصرار تھا کہ پاکستان کو بھی اپنی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہیے۔

تجزیہ کاروں نے وزیر اعظم عمران خان کے بیان کو موجودہ حالات میں نہایت اہم قرار دیا ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان جیسے اسلامی ملک کے لیے اسرائیل کو تسلیم کرنا کسی بھی مرحلے میں آسان فیصلہ نہیں ہو گا۔

البتہ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ ایسے فیصلوں کے لیے رائے عامہ ہموار کرنا ضروری ہے اور اس معاملے پر بحث میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہیے۔

وزیراعظم عمران خان نے منگل کو ایک نجی ٹی وی چینل 'دنیا نیوز' کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں مزید کہا تھا کہ اسرائیل کو تسلیم کر لیا تو پاکستان کو کشمیر سے بھی دست بردار ہونا پڑے گا۔ لہذٰا اُن کا ضمیر کبھی یہ گوارا نہیں کرے گا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کا اسرائیل کو تسلیم کرنا کسی بھی مرحلے پر آسان فیصلہ نہیں ہو گا۔

تجزیہ کار اور سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان کہتے ہیں کہ خارجہ پالیسی میں کچھ بھی حرفِ آخر نہیں ہوتا۔ وزیراعظم کا حالیہ بیان وقت کی ضرورت ہے اور پاکستانی دفتر خارجہ نے بھی اس حوالے سے بہترین بیان دیا تھا۔

شمشاد احمد خان نے انکشاف کیا کہ ماضی میں انہوں نے سابق صدر پرویز مشرف کو اسرائیل میں ایک تجارتی دفتر کھولنے کی تجویز دی تھی۔

اُن کے بقول اُنہوں نے صدر مشرف کو تجویز دی کہ اسرائیل کو تسلیم کیے بغیر یروشلم میں ایک تجارتی دفتر کھولا جائے، کیوں کہ عرب فلسطینیوں کو چھوڑتے جا رہے ہیں اور ہماری وہاں موجودگی فلسطین کاز کے لیے تقویت کا باعث ہو گی۔ لیکن اُن کے بقول یہ تجویز یاسر عرفات کو پسند نہیں آئی تھی۔

دفاعی تجزیہ کار میجر جنرل (ر) اعجاز اعوان کہتے ہیں کہ اگر کسی سیاسی جماعت نے اسرائیل کو تسلیم کیا تو اسے بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ پاکستانی عوام کا فلسطینیوں کے ساتھ ایک جذباتی رشتہ ہے، لہذٰا ایسا فیصلہ ممکن نہیں ہے۔

اعجاز اعوان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے معروضی حالات کے پیشِ نظر کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے اسرائیل کو تسلیم کرنا ایک بہت بڑا سیاسی نقصان ہو گا، لہذٰا کوئی بھی جماعت بھاری قیمت چکانے کے عوض اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا نہیں سوچے گی۔

Your browser doesn’t support HTML5

'پاکستان کے بھی اسرائیل سے بالواسطہ تعلقات رہے ہیں'

اعجاز اعوان نے کہا کہ یروشلم مسلمانوں کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل مقام ہے۔ لیکن فلسطینی عوام کے ساتھ اسرائیل نے جو رویہ اپنا رکھا ہے، اس کے پیشِ نظر مستقبل قریب میں پاکستان کی جانب سے کسی بڑے فیصلے کا امکان نہیں ہے۔

شمشاد احمد خان کہتے ہیں کہ پاکستان کو مقامی سطح پر کئی طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔ لہذٰا ایسے موقع پر پاکستان ایک نئے تنازع کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

اُن کے بقول پاکستان کو موجودہ حالات میں محتاط خارجہ پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے۔ اگر مستقبل میں دنیا کے حالات میں تبدیلی آئی تو پاکستان بھی اپنی خارجہ پالیسی کی نئی سمت متعین کر سکتا ہے۔

خیال رہے کہ امارات اور اسرائیل کے درمیان حالیہ دنوں میں سفارتی تعلقات بحال کرنے کے سمجھوتے کے بعد پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ردعمل کو مبہم قرار دیا جا رہا تھا۔

اس ردعمل کے بعد پاکستان میں مختلف چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں تھیں۔ تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان کے بیان کے بعد اب اس معاملے پر پاکستان کی پوزیشن واضح ہو گئی ہے۔

اسرائیل، امارات سمجھوتے کو فلسطین نے مسترد کر دیا تھا، جب کہ ایران اور ترکی سمیت کئی مسلم ممالک نے متحدہ عرب امارات کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ البتہ بعض اسلامی ممالک نے اس حوالے سے محتاط ردعمل دیا تھا۔