افغانستان کے صدر اشرف غنی نے پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کو فون کر کے انہیں امریکہ کے نمائندۂ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد کی افغانستان میں قیامِ امن سے متعلق کوششوں پر اعتماد میں لیا ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے سربراہان کی جمعرات کو ہونے والی بات چیت کے دوران افغان صدر نے عمران خان کو افغانستان کے دورے کی دعوت بھی دی۔
اطلاعات کے مطابق پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی صدر غنی کو پاکستان مدعو کیا ہے۔
اٖفغانستان اور پاکستان کی اعلیٰ قیادت کے درمیان یہ رابطہ ایسے وقت ہوا ہے جب خلیل زاد کابل کے دو روزہ دورے کے بعد جمعرات کو اسلام آباد پہنچے ہیں۔
حکومتِ پاکستان کے ایک بیان کے مطابق افغان صدر نے وزیرِ اعظم عمران خان سے گفتگو میں افغان امن عمل میں پاکستان کے تعاون پر اطمینان کا اظہار کیا اور انہیں افغان امن و مصالحت کی جاری کوششوں پر اعتماد میں لیا۔
دورانِ گفتگو عمران خان نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں امن و مصالحت کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کرتا رہے گا اور افغان فریقین کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔
پاکستان کے وزیرِ اعظم نے افغان صدر کے ساتھ بات چیت میں اپنے اس موقف کا بھی اعادہ کیا کہ افغان تنازع کا حل صرف مذاکرات کے ذریعے سیاسی تصفیے ہی سے ممکن ہے۔
دریں اثنا جمعرات کو اسلام آباد پہنچے کے کے بعد خلیل زاد اور پاکستان کی وزارت خارجہ کی سیکرٹری تہمینہ جنجوعہ سے وفود کی سطح پر ہونے والی بات چیت میں گزشتہ ماہ ابوظہبی میں امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والی بات چیت کے بعد افغان عمل کو آگے بڑھانے کے معاملے پر تبادلہ خیال کیا ہے۔
قبل ازیں پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے جمعرات کو ہفتہ وار بریفنگ کے دوران صحافیوں کو بتایا تھا کہ زلمے خلیل زاد اسلام آباد میں قیام کے دوران پاکستانی حکام سے افغانستان میں قیامِ امن اور افغان تنازع کے حل کی کوششوں پر بات چیت کریں گے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ اس دورے کے دوران اعلٰی امریکی اہلکار لیزا کرٹس بھی خلیل زاد کے ہمراہ پاکستان کی سول اور عسکری قیادت سے ہونے والے ملاقاتوں میں شریک ہوں گی۔
خلیل زاد ایک ایسے وقت پاکستان پہنچے ہیں جب افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان بات چیت کا عمل تعطل کا شکار ہوگیا ہے۔
بعض اطلاعات کے مطابق زلمے خلیل زاد کے اسلام آباد دورے کا مقصد طالبان کے کو مذاکرات کے میز پر واپس لانے کے لیے پاکستان کا تعاون حاصل کرنا ہے۔
جمعرات کو بریفنگ کے دوران جب ترجمان محمد فیصل سے پوچھا گیا کہ کیا خلیل زاد کے دورۂ اسلام آباد کے دوران طالبان کے نمائندوں اور امریکی وفد کے درمیان ملاقات کی توقع ہے اور کیا پاکستان اس کے لیے کوئی کردار ادا کر رہا ہے ؟ تو انہوں کوئی واضح جواب دینے سے گریز کیا۔
تاہم محمد فیصل نے کہا کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان گزشتہ ماہ ابو ظہبی میں ہونے والی بات چیت پاکستان کی کوششوں سے ممکن ہوئی تھی اور پاکستان اس موقف پر قائم ہے کہ افغانون کے درمیان بات چیت ہی سے افغانستان میں امن و استحکام ممکن ہے۔
پاکستان دفتر خارجہ کے ترجمان نے مزید کہا کہ افغان امن عمل ایک نازک معاملہ ہے اور پاکستان کا یہی موقف رہا ہے کہ افغانوں کے درمیان مذاکرات ہی آگے بڑھنے کا سب سے بہتر راستہ ہے۔
امریکی وفد کی جنرل باجوہ سے ملاقات
امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد کی قیادت میں امریکی وفد نے جمعرات کو پاکستانی فوج کی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی جس میں علاقائی سلامتی کی صورت حال اور افغان امن و مصالحت کے معاملے پر تبادلہ خیال ہوا۔ امریکی وفد میں افغانستان میں امریکی اور بین الاقوامی افواج کے کمانڈر جنرل اسکا ٹ ملر، اعلیٰ امریکی اہل کار لیزا کرٹس اور اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کے ناظم الامور بھی شامل تھے۔
پاکستانی فوجی کے شعبہ تعلقات عامہ یعنی 'آئی ایس پی آر' کی طرف سے جاری ایک بیان کے مطابق امریکی وفد نے افغان امن عمل میں پاکستان کی کوششوں کو سراہا ہے۔ اس موقع پر جنرل باجوہ نے اس بات کا اعادہ کیا کہ افغانستان کا امن پاکستان کے لیے اہم ہے اور انہوں نے خطے میں امن و استحکام کے قیام کے لیے پاکستانی کوششیں کو جاری رکھنے کی یقینی دہانی کروائی۔