امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد منگل کو کابل پہنچے ہیں جہاں وہ افغانوں کی سرپرستی اور قیادت میں ہونے والے امن مذاکرات کے لیے امریکی کوششوں کے بارے میں افغان صدر اشرف غنی، چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ اور افغان سیاسی رہنماؤں سے بات چیت کریں گے۔
خلیل زاد ایک ایسے وقت کابل پہنچے ہیں جب افغان امن بات چیت تعطل کا شکار ہے اور طالبان ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستانی حکام نے افغان امن مذاکرات میں شامل ہونے کے لیے طالبان پر دباؤ ڈالنے کے لیے افغانستان کے ایک اعلیٰ طالبان رہنما کو گرفتار کر لیا ہے۔
طالبان ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ حافظ محب اللہ جو طالبان کے دور حکومت میں مذہبی امور کے وزیر تھے کو تین دن پہلے پشاور سے گرفتار کیا گیا ہے۔
خلیل زاد افغانستان میں امن عمل میں علاقائی ممالک کا تعاون حاصل کرنے کے لیے خطے کے دورے پر ہیں، دو ہفتوں پر محیط چار ملکوں کے دورے کے دوران خلیل زاد بھارت اور چین میں اعلیٰ عہدیداروں سے ملاقات کر چکے ہیں۔
کابل میں امریکی سفارت خانے کی طرف سے منگل کو ٹویٹر پر جاری ایک بیان کے مطابق خلیل زاد افغانوں کی قیادت اور سرپرستی میں افغان امن عمل کے لیے امریکی کوششوں کے اگلے مرحلے کے بارے میں افغان قیادت اور سیاسی رہنماؤں سے تبادلہ خیال کریں گے۔
پاکستان میں طالبان رہنما گرفتار
افغان طالبان ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ طالبان دورِ حکومت میں مذہبی امور کے وزیر حافظ محب اللہ کو تین دن پہلے پشاور سے گرفتار کیا گیا تھا۔
طالبان رہنما کو گرفتار کرنے کی اطلاعات ایک ایسے وقت پر سامنے آئی ہیں جب امریکہ اور افغان حکومت پاکستان پر زور دے رہی ہے کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے اسلام آباد طالبان پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے۔
پاکستان حکام نے طالبان رہنما کی گرفتاری کی اطلاعات پر تاحال کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ محب اللہ کی گرفتاری طالبان کو ایک پیغام دینے کی کوشش ہو سکتی ہے۔
گرفتاری کیا طالبان پر دباؤ ڈالنے کے لیے ہے؟
افغان امور کے ماہر اور سینیئر صحافی رحیم اللہ یوسف زئی نے منگل کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حافظ محب اللہ طالبان کی شوریٰ کے رکن نہیں ہیں۔
رحیم اللہ کے بقول "پاکستان نے کئی بار طالبان سے کہا ہے کہ آپ افغان حکومت سے مذاکرات کریں، جنگ بندی کا اعلان کریں ورنہ ہم یہاں پر جو آپ کے لوگ ہوں گے ان کے خلاف کارروائی کریں گے ان سے کہیں گے کہ وہ پاکستان سے چلے جائیں ۔"
تجزیہ کار رحیم اللہ کا کہنا ہے ان کے خیال میں محب اللہ کی گرفتاری طالبان کو ایک پیغام دینے کی کوشش ہے کہ وہ مذاکرات کے عمل میں شامل ہوں بصورت دیگر مزید گرفتاریاں بھی ہو سکتی ہیں۔ تاہم انہوں نے کہا ضروری نہیں کہ ایسی کارروائی کے مطلوبہ نتائج سامنے آئیں۔
امن مذاکرات میں تعطل
دوسری طرف طالبان نے کہا ہے کہ افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے لیے ہونے والی بات چیت کا عمل رک گیا ہے۔
طالبان کے ایک سینیئر عہدے دار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا تھا بات چیت کا عمل اس وقت رکا ہوا ہے اور یہ معلوم نہیں کہ اگلی ملاقات کب اور کہاں ہو گی۔
خلیل زاد نے پیر کو بیجنگ سے کابل روانہ ہونے سے قبل ایک ٹوئٹر بیان میں کہا کہ افغانستان میں امن عمل کے بارے میں چینی عہدیداروں سے ہونے والی بات چیت مفید رہی۔
خلیل زاد نے کہا کہ بیجنگ میں ہونے والی بات چیت میں چینی اعلیٰ عہدیداروں نے افغان امن عمل کی کامیابی کے لیے چین کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
خلیل زاد کابل کے دورے کے بعد اسلام آباد پہنچیں گے جہاں پاکستان میں قیام کے دوران پاکستان کی سول اور عسکری قیادت سے ملاقاتوں میں افغان امن و مصالحت کے لیے ہونے والی کوششوں پر تبادلہ خیال کریں گے۔