افغان طالبان نے امریکہ کے صدر کے اس بیان کا خیر مقدم کیا ہے جس میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ رواں برس کرسمس تک امریکہ کی تمام فوج افغانستان سے واپس اپنے ملک آ جانی چاہیے۔ تاہم بعض تجزیہ کاروں نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اس اقدام سے افغانستان میں طاقت کا توازن طالبان کے حق میں جا سکتا ہے جس کا لامحالہ اثر افغان حکومت پر پڑے گا۔
تجزیہ کاروں کے بقول افغانستان سے امریکی فوج کے مکمل انخلا کا فیصلہ صدر ٹرمپ کی انتخابی حکمت عملی کا حصہ ہے، لیکن اس کے خطے کی صورتِ حال پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
دوسری جانب افغانستان کی حکومت نے صدر ٹرمپ کے بیان پر فی الحال کسی ردِ عمل کا اظہار نہیں کیا۔ البتہ افغان وزیرِ دفاع نے صدر ٹرمپ کے بیان کا حوالہ دیے بغیر کہا ہے کہ افغانستان کی سرزمین پر گزشتہ چھ ماہ کے دوران ہونے والی تمام فوجی کارروائیاں افغان افواج نے کی ہیں۔
افغان فوج کے سربراہ جنرل یاسین ضیا نے بھی میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان کی مسلح افواج ملک سے دشمنوں کو ختم کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہیں۔
SEE ALSO: طالبان کا افغانستان سے کرسمس تک امریکی فورسز کی واپسی کے منصوبے کا خیرمقدمبین الاقوامی امور کے تجزیہ کار زاہد حسین کا کہنا ہے اگرچہ پہلے یہ بات سامنے آئی تھی کہ افغانستان سے غیر ملکی بشمول امریکی فورسز کا مکمل انخلا اس وقت ہو گا جب طالبان، افغان حکومت اور دیگر افغان دھڑوں کے درمیان امن معاہدہ طے پا جائے گا۔
اُن کے بقول علاقائی اور کئی دیگر ممالک کی یہ خواہش رہی ہے کہ افغانستان کے سیاسی مستقبل کے بارے میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان کوئی سمجھوتہ طے پانے سے قبل غیر ملکی فوج افغانستان سے نہ جائے۔
لیکن تجزیہ کار زاہد حسین نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ افغان فریقین کے درمیان کوئی معاہدہ طے پانے سے پہلے اگر امریکی افواج کا انخلا ہو جاتا ہے تو پھر طاقت کا توازن طالبان کے حق میں جا سکتا ہے۔ جس سے کابل حکومت کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔
زاہد حسین کا کہنا ہے کہ علاقائی ممالک کے لیے یہ امر باعث تشویش رہا ہے کہ افغانستان میں پائیدار امن سے پہلے غیر ملکی انخلا کی صورت میں افغانستان میں سیکیورٹی خلا پیدا ہو سکتا ہے۔
تجزیہ کار ہما بقائی کہتی ہیں کہ افغانستان میں تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے جن میں عام شہری بھی نشانہ بن رہے جس پر بین الاقوامی برداری کو تشویش ہے۔
بعض ممالک اس خدشے کا بھی اظہار کرتے رہے ہیں کہ افغانستان میں ایک ایسی خانہ جنگی شروع ہو سکتی ہے جسے روکنا اتنا آسان نہیں ہو گا۔
تاہم زاہد حسین کے بقول صدر ٹرمپ کے لیے یہ بات اہم ہے کہ وہ امریکی عوام کو یہ بتا سکیں گے کہ انہوں نے افغانستان میں تعینات تمام فوجیوں کو واپس بلا لیا ہے۔ کیوں کہ بیشتر امریکی افغانستان میں امریکی فوج کی موجودگی کے حق میں نہیں ہیں۔
زاہد حسین کے بقول افغانستان میں سیکیورٹی خلا پیدا ہونے کے بعد بعض عناصر بلواسطہ یا بلا واسطہ اس صورتِ حال سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔
سوویت یونین کے افغانستان سے انخلا کی مثال دیتے ہوئے زاہد حسین نے کہا کہ اس کے بعد ملک میں خانہ جنگی شروع ہو گئی تھی جب کہ بیرونی ممالک کی مداخلت سے صورتِ حال مزید پیچیدہ ہو گئی تھی۔
ہما بقائی کے بقول افغانستان سے غیر ملکی فورسز کے مکمل انخلا سے متعلق فیصلے پر نظرثانی ہونی چاہیے کیوں کہ اس سے پیدا ہونے والا خلا پُر کرنا مشکل ہو گا۔
اُن کے بقول خطے کے دیگر ممالک یعنی چین، پاکستان، روس یا بھارت افغانستان میں سیکیورٹی کی ذمہ داری کے لیے آگے نہیں آئیں گے۔ پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ پاکستان اب کسی تنازع کا حصہ نہیں بنے گا۔
زاہد حسین کہتے ہیں کہ مکمل انخلا کا انحصار امریکہ کے صدارتی انتخابات کے نتائج پر بھی ہے۔ اُن کے بقول اگر بائیڈن جیت گئے تو ہو سکتا ہے کہ وہ مکمل انخلا کے بجائے بتدریج انخلا کا فیصلہ کریں۔ لیکن اگر صدر ٹرمپ کامیاب ہوئے تو انخلا سے متعلق اپنے وعدے پر عمل کریں گے۔
اگرچہ اب بھی عراق، شام اور افغانستان میں امریکہ کے ہزاروں فوجی موجود ہیں۔ لیکن امریکہ کو طویل جنگوں سے نکالنے کا وعدہ صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم اور خارجہ پالیسی میں سرِ فہرست رہا ہے۔
یاد رہے کہ صدر ٹرمپ بھی بارہا کہہ چکے ہیں کہ وہ افغانستان میں امریکی فوجیوں کے مزید قیام کے خواہش مند نہیں۔
طالبان نے صدر ٹرمپ کے بیان کا خیر مقدم کیا ہے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ افغانستان سے امریکی فوجوں کا انخلا امریکہ۔طالبان امن معاہدے کے حوالے سے ایک مثبت قدم ہو گا۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ طالبان کی حکومت امریکہ سمیت دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھے گی۔
یاد رہے کہ رواں برس فروری میں امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ طے پایا تھا جس میں طالبان کے دہشت گردی کی روک تھام کی یقین دہانیوں کے بدلے امریکہ نے افغانستان سے اپنی افواج مئی 2021 تک واپس بلانے پر اتفاق کیا تھا۔