افغان طالبان نے دھمکی دی ہے کہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن مذاکرات کی منسوخی سے متعلق فیصلے سے مزید امریکی مارے جائیں گے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اتوار کو کیمپ ڈیوڈ میں طالبان رہنماؤں اور افغان صدر اشرف غنی سے الگ الگ ملاقاتیں ہونا تھیں۔ تاہم اُنہوں نے یہ کہہ کر افغان امن مذاکرات منسوخ کرنے کا اعلان کیا کہ مذاکرات اور حملے ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔
حالیہ چند روز کے دوران طالبان کے حملوں میں متعدد افراد ہلاک و زخمی ہو گئے تھے جن میں ایک امریکی فوجی بھی شامل تھا۔
طالبان ترجمان کا کہنا ہے کہ امن مذاکرات کی منسوخی کے فیصلے سے امریکہ کو مزید جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑے گا اور اس کے ساتھ اس کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچے گا۔
طالبان ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ دنیا کے سامنے امریکہ کا امن مخالف چہرہ بے نقاب ہو گا۔
صدر ٹرمپ کا فیصلہ درست ہے: مائک پومپیو
دوسری جانب امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ نے طالبان رہنماؤں سے خفیہ مذاکرات منسوخ کرنے سے متعلق درست فیصلہ کیا ہے کیونکہ طالبان تنظیم افغانستان میں حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔
وزیر خارجہ پومپیو نے امریکی نشریاتی ادارے 'سی این این' اور 'این بی سی' کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اس سے پہلے کہ طالبان کو امریکی صدر سے ملاقات کا موقع دیا جائے، ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ افغانستان میں تشدد اور دہشت گردی ختم کرنے سے متعلق اپنے وعدوں کی کس حد تک پاسداری کرتے ہیں۔
یاد رہے کہ امریکہ اور طالبان کے مذاکرات کاروں کے درمیان بات چیت کا سلسلہ لگ بھگ ایک سال سے جاری تھا اور امریکہ کے اعلیٰ ترین مذاکرات کار زلمے خلیل زاد نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ فریقین کے درمیان سمجھوتے کا مسودہ تیار کر لیا گیا ہے۔
اگر صدر ٹرمپ اس مسودے کی منظوری دے دیتے ہیں تو امریکہ افغانستان کے پانچ فوجی اڈوں سے پانچ ہزار فوجیوں کو اگلے 135 دن میں واپس بلا لے گا۔
اُدھر طالبان ترجمان سہیل شاہین نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے، ’’ہم نے گزشتہ دنوں امریکی مذاکرات کاروں کے ساتھ ایک سمجھوتہ طے کر لیا تھا۔ فریقین اس سمجھوتے سے مطمئن تھے۔ اس بارے میں صدر ٹرمپ کی ٹوئٹس ناقابل یقین ہیں جن سے اُن کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔‘‘
څو ورځې وړاندې مو د امریکایي ټيم سره توافقنامه نهایي کړه، متن یې ددواړو ټيمو د مشرانو له خوا په نښه او دقطر لوري ته وسپارل شو. ټول پرې راضي وو. پدې اتفاق وشو چې دقطر هیواد به یې اعلان کوي. پدې وخت کې ناببره د ولسمشرټرمپ ټویټونه دحیرانتیا وړ او یقیناخپل اعتبار یې زیانمن کړی.
— Suhail Shaheen (@suhailshaheen1) September 8, 2019
امریکہ کے معروف تھنک ٹینک ’ولسن سینٹر‘ سے وابستہ تجزیہ کار مائیکل کوگل مین کا کہنا ہے، ’’صدر ٹرمپ کی ٹوئٹ کی ایک ممکنہ وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ ان مذاکرات سے نکلنے کا بہانہ ڈھونڈ رہے تھے۔
مائیکل کوگل مین کے بقول صدر ٹرمپ کو یہ بہانہ مل گیا ہے اور وہ طالبان کی پوزیشن کمزور کرنا چاہتے ہیں تاکہ مستقبل میں ہونے والے مذاکرات میں امریکی نمائندوں کو بہتر سودے بازی کا موقع مل سکے۔
One possible reason for Trump%27s bombshell #Taliban tweet: He needed a pretext to back out of a deal that wasn%27t going to work. He found one, and, in announcing it, sought to put the Taliban on the back foot to improve the USG bargaining position in potential future negotiations.
— Michael Kugelman (@MichaelKugelman) September 8, 2019
کنیٹی کٹ سے سینیٹر کرس مرفی نے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ افغان صدر اشرف غنی اور طالبان رہنماؤں کو کیمپ ڈیوڈ بلانے کا آخر کیا مقصد تھا؟ اس سمجھوتے پر افغانستان میں دستخط کرنے کے بجائے امریکہ میں دستخط کرنے کی کیا تُک تھی؟
What would have been the point of dragging Ghani and Taliban leaders all the way to Camp David? How on earth would legitimacy of a deal in Afghanistan been enhanced by it being signed in America rather than Afghanistan?
— Chris Murphy (@ChrisMurphyCT) September 8, 2019
پاکستان امن مذاکرات کی بحالی کا خواہاں
امن مذاکرات کی منسوخی کے فیصلے پر پاکستان نے کہا ہے کہ اسلام آباد جلد از جلد افغان امن مذاکرات کی بحالی کا خواہاں ہے۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کی جانب سے اتوار کی شب جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ افغان مسئلے کا حل سیاسی تصفیے سے ہی ممکن ہے۔ فریقین اس مسئلے کا حل بات چیت کے ذریعے تلاش کریں۔
دفتر خارجہ کے بیان کے مطابق پاکستان نے ہمیشہ تشدد کی مذمت کی ہے اور پاکستان مشترکہ ذمہ داری کے طور پر خلوصِ دل سے افغان امن و مصالحت میں سہولت کار کا کردار ادا کر رہا ہے۔