سیاست دان عوام کے مقابلے میں زیادہ لمبی عمر پاتے ہیں ، یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے آکسفورڈ یونیورسٹی کے ایک مطالعے میں جس کے کے لیے گیارہ ملکوں اور ساڑھے ستاون ہزار پانچ سو سے زیادہ سیاستدانوں کی صحت کے اعداد وشمار کو جانچا گیا ہے۔
یورپئین جرنل آف ایپیڈیمیالوجی میں شائع ہونے والی یہ نئی اسٹڈٰی اشرافیہ اورعام لوگوں کے درمیان بڑھتے ہوئے فرق کو ظاہر کرتی ہے۔ محققین کے مطابق، یہ تضاد بتدریج بڑھتا جا رہا ہے۔
تاریخی طور پر انیسویں صدی کے اواخر اوربیسویں صدی کے اوائل میں زیادہ تر ملکوں کے سیاست دانوں کی شرح اموات عام آبادی کے برابر تھی۔ تاہم، بیسویں صدی کے دوران، سیاستدانوں اور عوم کے بارے میں جمع کیے گئے حقائق ظاہر کرتےہیں کہ آبادی کے ان دو طبقوں میں شرح اموات میں فرق واضح طور پر بڑھ گیا ۔ یہ رجحان مطالعے میں شامل تمام مما لک میں دیکھا گیا۔ اس کے مطابق عام آبادی پر سیاست دانوں کا "سروائول ایڈوانٹیج" یعنی سیاستدانوں کی بقا عام لوگوں کے مقابلے میں بہتر رہی اور گزشتہ ڈیڑھ سو سالوں میں یہ فرق سب سے زیادہ ہے ۔
اس مطالعے میں آسٹریلیا، آسٹریا، کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، ہالینڈ، نیوزی لینڈ، سوئٹزرلینڈ، برطانیہ اور امریکہ کو شامل کیا گیا۔
تحقیق بتاتی ہے کہ سیاست دان عوام سے اوسطاً ساڑھے چار سال زیادہ لمبی عمرجی رہے ہیں۔
البتہ سیاستدان اور عام لوگ جن کی وہ نمائندگی کرتے ہیں ان کی عمروں کے درمیان عدم مساوات کچھ ملکوں میں زیادہ اور کچھ میں کم پائی گئی۔ مثلاً سوئٹزرلینڈ میں سیاستدانوں اور عوام کے درمیان یہ فرق ساڑھے تین سال تک جبکہ امریکہ میں ساڑھے سات سال تک ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
حالیہ برسوں میں بہت سے اعلیٰ آمدنی والے ممالک میں اوسط عمر میں بہتری کا رجحان رک گیا ہے اور انہی ممالک کے غریب ترین سماجی طبقات میں شامل لوگوں کی عمروں میں مسلسل کمی آئی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ فرق بڑھتی ہوئی عدم مساوات کی عکاسی کرتا ہے، اور کووڈ کی عالمی وبا نے اس تفریق کو اور بھی بڑھا دیا ہے۔ مثلاً برطانیہ کے محکمہ صحت اور سماجی نگہداشت کے ادارے کے مطابق، ان کے ہاں، غریب ترین علاقوں میں رہنے والے مردوں کی عمر خوشحال علاقوں میں رہنے والے مردوں کی نسبت دس سال کم ہونے کی توقع ہے جبکہ خواتین میں یہ فرق سات سال تک کا ہوسکتا ہے۔
یونیورسٹی آف آکسفورڈ کے ہیلتھ اکنامکس ریسرچ سینٹر کے سینئر محقق اور مطالعہ کے شریک مصنف ڈاکٹر لارنس روپ کا کہنا ہے کہ یہ تحقیق اب تک کی سب سے جامع ہے کیونکہ اس میں سیاست دانوں کی شرح اموات اور متوقع عمر اور انکی جنس کے مطابق ان کا عام آبادی کے ساتھ موازنہ کیا گیا ہے۔اس مطالعے میں فرانس اور امریکہ سے تعلق رکھنے والی تین فیصد خواتین سیاستدان اور جرمن خواتین سیاستدانوں کی اکیس فیصد تعداد کو شامل کیا گیا ۔
مطالعے میں شامل ہر سیاست دان کا ان کے ملک، عمر اور جنس کے مطابق ان کے زمانے میں ان کی قومی آبادی کی اموات کے اعداد و شمار کے ڈیٹا سےموازنہ کیا گیا۔ اس کے بعد محققین نے ہر سال سیاست دانوں میں ہونے والی اموات کی تعداد کا موازنہ آبادی کی شرح اموات کی بنیاد پر متوقع تعداد سے کیا۔
محققین کا خیال ہے کہ سیاست دانوں کی لمبی عمر کے پیچھے مختلف عوامل کار فرما ہوسکتے ہیں، جن میں صحت کی دیکھ بھال کا معیار ، طرز زندگی اور بہتر خوراک شامل ہیں۔ اس کے علاوہ سیاست دانوں کے لیے طبی سہولیات اور خاص طور پر دل کی بیماری کی صورت میں بہتر علاج تک رسائی بھی اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر، امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ اور برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل دونوں ہائی بلڈ پریشر کا شکار تھے اور بالآخر فالج کے باعث ان کی موت واقع ہوئی۔ تاہم، جب انیس سو ساٹھ کی دہائی میں ہایپر ٹینشن کے نمٹنے کے لیے دوائیاں وسیع پیمانے پر دستیاب ہوئیں، تب سے دورانِ خون کی بیماریوں سے موت کا خطرہ نمایاں طور پر کم ہو گیا ہے۔
اسٹڈی کے مطابق یہ بھی ممکن ہے کہ انتخابی مہم کے نئے طریقوں ، بشمول ٹیلی ویژن نشریات اور سوشل میڈیا کے متعارف ہونے کی وجہ سےجس قسم کی شخصیات اب سیاست میں آتی ہیں اس کا اثر بھی متوقع عمر کے رجحانات پر پڑا ہو۔
کیا سیاسی عہدہ رکھنے سے شرح اموات پر براہ راست اثر پڑتا ہے؟ اس سلسلے میں اسٹڈی کے نتائج ملے جلے رہے۔ امریکہ میں حال ہی میں ہونے والے انتخابات کا ایک تجزیہ بتاتا ہے کہ جیتنے والے ہارنے والوں کے مقابلے میں تقریباً ایک سال زیادہ جیتے ہیں۔
محققین کا کہنا ہے چونکہ مطالعہ زیادہ آمدنی والے ممالک پر مرکوز ہے، اس لیے یہ نتائج کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک سے مطابقت نہیں رکھتے۔