نیب کے خلاف چوہدری برادران عدالت میں، کیا حکمران اتحاد میں دراڑ پڑ رہی ہے؟

فائل فوٹو

لاہور ہائی کورٹ میں پاکستان مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین اور اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہی کی جانب سے قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین کے اختیارات اور اپنے خلاف تین انکوائریز پر دائر درخواست میں بینچ کے رکن پر اعتراض اٹھا دیا گیا۔

لاہور ہائی کورٹ میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی اتحادی مسلم لیگ (ق) کی قیادت کی جانب سے چیئرمین نیب کے اختیارات کے خلاف دائر درخواست پر سماعت ہوئی۔ جس میں چوہدری پرویز الٰہی خود عدالت میں پیش ہوئے۔

جسٹس سردار احمد نعیم کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ بینچ کے سربراہ نے کہا کہ اس کیس کی فائل ابھی موصول ہوئی ہے۔

سماعت کے دوران روسٹرم پر موجود لاہور ہائی کورٹ بار کے صدر طاہر نصر اللہ وڑائچ نے چوہدری برادران کا کیس سننے والے بینچ پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ جسٹس فاروق حیدر ماضی میں چوہدری برادران کے کیسز کی پیروی کرتے رہے ہیں لہٰذا یہ بینچ چوہدری برادران کا کیس نہ سنے۔

جس پر جسٹس سردار احمد نعیم نے کہا کہ انہوں نے کیس کی فائل ابھی پڑھی نہیں ہے بہتر ہے اس کیس کو پیر کے لیے رکھ لیا جائے۔

بعد ازاں عدالت نے چوہدری برادران کے کیس پر سماعت پیر تک ملتوی کر دی۔

Your browser doesn’t support HTML5

چوہدری برادران نیب کے خلاف عدالت میں

تجزیہ کاروں کے مطابق یہ کیس قانونی نوعیت کا کم اور سیاسی نوعیت کا زیادہ معلوم ہوتا ہے۔ سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلیم بخاری کی رائے میں پاکستان مسلم لیگ (ق) کا چیئرمین نیب کے خلاف عدالت میں جانا ایک بڑا قدم ہے۔

ان کے بقول جب سے تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی ہے تو پی ٹی آئی کے اندر کی گروپ بندی ایک الگ بات ہے، لیکن اتحادیوں کا اِس حد تک چلے جانا خاصی پریشانی کی صورت حال کا اشارہ کر رہی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سلیم بخاری نے کہا کہ اِس سے قبل صوبہ بلوچستان سے حکومتی جماعت کے اتحادی اختر مینگل جس طرح سے حکومت پر تنقید کرتے ہیں وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اِس کے بعد ایم کیو ایم کو دیکھ لیں جو صوبہ سندھ سے تحریک انصاف کی اتحادی جماعت ہے۔ اُنہوں نے بھی حکومت پر تنقید کی۔ یہ باتیں سمجھ میں آتی تھیں کیونکہ ایسی سیاسی سرگرمیاں ہوتی رہتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نیب کے بارے میں متحدہ حزب اختلاف کی جماعتوں کا خیال ہے کہ اسے پولیٹیکل انجینئرنگ (سیاسی جوڑ توڑ) کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

سلیم بخاری نے مزید کہا کہ چوہدری برادران اگر کسی بھی صورت میں حکومت سے الگ ہو جاتے ہیں تو نہ صرف پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت زیادہ مشکل میں آ سکتی ہے بلکہ مرکز میں بہت برا حال ہو جائے گا۔ یہ تو بہت ہی انتہائی اقدام ہے جو مسلم لیگ (ق) نے اُٹھایا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اِس سے پہلے بھی چوہدری پرویز الٰہی قادیانیوں کے مسئلے پر اور اُس سے پہلے پنجاب میں وزارتوں کے حوالے سے شکایات کرتے رہے ہیں۔

ان کے بقول بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ وہ آخری حد تک چلے گئے ہیں کہ نیب جو اِس وقت حکومت کے پاس سب سے طاقتور ادارہ ہے۔ جس کے ذریعے نواز شریف، شہباز شریف اور دیگر کو خاموش کرایا گیا ہے۔ اُس کے بارے میں حکومتی اتحادی کی طرف سے یہ الزام بہت خوفناک ہے۔ جو مستقبل میں ایک بڑا ہنگامہ بھی بن سکتا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

'حکومت کو اپوزیشن کے بجائے اپنے کام پر توجہ دینی چاہیے'

سینئر صحافی اور کالم نویس سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ چوہدری برادران کا نیب سے پہلے بھی گلا رہا ہے۔ مسلم لیگ (ق) کے کافی لوگوں نے انکوائریوں سے بڑی مشکل سے چھٹکارا حاصل کیا تھا۔ پھر دوبارہ سے اُنہیں پتا چلا ہے کہ یہ انکوائریاں ابھی بند نہیں ہوئیں۔ تو وہ بول پڑے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ وہ رمضان کے مہینے کے بعد سیاسی منظرے نامے میں تو کوئی تبدیلی نہیں دیکھ رہے البتہ سالانہ بجٹ کے بعد کوئی نئی سیاسی تبدیلی آئے گی۔

سہیل وڑائچ نے کہا کہ حکومت میں تبدیلی آئے نہ آئے، سیاست میں تبدیلی ضرور آئے گی۔ بجٹ کے بعد سارے سیاسی منظر نامے میں ہی ایک تحرک پیدا ہو گا۔ اُس کے نتیجے میں کیا ہوتا ہے ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ دیکھتے ہیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔

سلیم بخاری سمجھتے ہیں کہ موجودہ وقت میں چوہدری برادران کا نیب کے بارے میں بیانیہ مسلم لیگ (ن) کے بیانیے کی حمایت ہے اور حمایت بھی کسی عام جماعت یا حکومت سے باہر کی جماعت کی نہیں ہے بلکہ ایک ایسی جماعت جس پر پی ٹی آئی حکومت کی ساری بساط کھڑی ہوئی ہے۔ جو کہ خاصی سنجیدہ اور اہم صورت حال کی طرف اشارہ ہے۔

سلیم بخاری کو لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں دیگر سیاسی جماعتیں بھی اِس پٹیشن کا حصہ بن سکتی ہیں۔

سلیم بخاری کا کہنا تھا کہ نیب کے چیئرمین کبھی کبھی فرما دیتے ہیں کہ ہوا کا رخ تبدیل ہونے والا ہے۔ اُس ہوا کے رخ کے تبدیل ہونے کا انتظار کرتے کرتے اتنا وقت گزر گیا ہے کہ ابھی تک تبدیل نہیں ہوا۔ اِس لیے حکومت کے قریب بیٹھے شخص جن پر کرپشن کے الزامات ہیں۔ جن پر ریفرینس دائر ہوئے ہیں اُن پر تو ابھی تک نیب نے ہاتھ نہیں ڈالا۔

انہوں نے کہا کہ چیئرمین نیب اپنے ایک انٹرویو میں کہہ چکے ہیں اگر حکومت کے کسی اتحادی یا حکومتی بندے کے خلاف کارروائی کی جائے تو یہ حکومت دس منٹ میں گر جائے گی۔ جس سے اُن کی طرف داری ساری چیزوں سے واضح ہے۔ نیب نے تاحال کسی بھی حکومتی اتحادی شخصیت یا حکومت میں شامل افراد کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ چوہدری برادران کا یہ کہنا کہ نیب پولیٹیکل انجینئرنگ کے لیے استعمال ہوتا ہے اِس سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے بیانیے کو بھی تقویت ملی ہے۔

انہوں کے بقول جب ایک اتحادی بھی بول پڑے تو پھر اِس کا مطلب ہے کہ کچھ نہ کچھ ضرور ہے۔

سہیل وڑائچ نے مزید کہا کہ نیب تمام حزب اختلاف کی جماعتوں اور حکومتی لوگوں پر بھی مقدمات بنا رہی ہے جو کوئی حیرت ناک بات نہیں ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

'معلوم نہیں، نواز شریف کو بیرون ملک جانے سے کیوں روکا جا رہا ہے'

ان کا کہنا تھا کہ چینی اسکینڈل میں مونس الٰہی کا نام آنے سے پہلے بھی لگتا تھا کہ مسلم لیگ (ق)، تحریک انصاف کے ساتھ نہیں چل پا رہی اور اُس کو یوں لگتا ہے کہ اِس سب کے پیچھے پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔ اِسی لی وہ اتنا اونچا بولے ہیں ورنہ وہ اندر خانے جا کر مل لیتے اور اندر ہی بات کر لیتے۔ وہ اگر اِس چیز کو سب کے سامنے لے کر آئے ہیں تو اِس کا مطلب ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اِس کے پیچھے کوئی شرارت ہو رہی ہے۔

سلیم بخاری کی رائے میں جب اِس کیس کی باقاعدہ سماعت شروع ہو گی تو بہت سے پرتیں اور کھلیں گی۔ اِس کیس سے حکومت پر بہت دباؤ بڑھے گا کیونکہ ایک اتحادی نے اتنے بڑے ادارے کے خلاف اتنے سنگین الزامات لگا دیے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ماضی قریب میں مسلم لیگ (ق) اور مسلم لیگ (ن) کے رابطے کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ جس کی دونوں طرف سے تصدیق بھی کی گئی ہے۔

سلیم بخاری کے مطابق یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ اگر چوہدری پرویز الٰہی وزیراعلٰی بننے پر مان جاتے ہیں تو اِس پر مسلم لیگ (ن) کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ جس کا اظہار مسلم لیگ (ن) کے کئی اہم رہنما بیانات میں بھی کر چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ چینی اسکینڈل میں مونس الٰہی کا نام آنے سے پہلے سے مسلم لیگ (ق) کے حکومت مخالف بیانات آنے شروع ہو گئے تھے۔ کچھ نہ کچھ ہو رہا ہے اور وہ کچھ نہ کچھ ابھی آنکھوں کو نظر نہیں آ رہا۔

خیال رہے گزشتہ روز چوہدری برادران نے قومی احتساب بیورو کے چیئرمین کے اختیارات کے غلط استعمال اور اپنے خلاف 20 سال پرانی تین تحقیقات کو عدالت عالیہ میں چیلنج کیا تھا۔

مسلم لیگ (ق) نے موقف اپنایا کہ چیئرمین نیب نے قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے تحت درخواست گزاروں کے خلاف اختیارات کے غلط استعمال، آمدن سے زائد اثاثے سے متعلق انکوائریز کی منظوری دی۔

درخواست میں اعتراض اٹھایا گیا ہے کہ نیب کا قیام، اس کی ساکھ اور اس کا سیاسی انجینئرنگ کے لیے استعمال نہ صرف سیاسی جماعتوں بلکہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کی تنظیموں اور دانشوروں میں موضوع بحث بنا ہوا ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ ملک کی اعلیٰ عدالتوں کی جانب سے بھی نیب کے اقدامات اور طریقہ کار کا نوٹس لیا گیا تھا۔ درخواست گزاروں کے مطابق 2017 اور 2018 میں جب ان کے حریف اقتدار میں تھے تب نیب کے ریجنل بورڈ اور تفتیشی افسران کی جانب سے تینوں انکوائریز کو بند کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔

ان کے مطابق چیئرمین نیب نے 2019 میں اُن کے خلاف آمدن سے زائد اثاثوں کے معاملہ کھولنے کی 19 سال بعد دوبارہ منظوری دی ہے۔

چوہدری برادران کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ تحقیقات کرنے کا پورا عمل آرڈیننس کی لازمی دفعات کی خلاف ورزی ہے لہٰذا عدالت سے استدعا کی گئی کہ نیب کے اٹھائے گئے اقدامات غیر قانونی ہیں لہٰذا انہیں کالعدم قرار دیا جائے اور چیئرمین نیب کی جانب سے دیے گئے احکامات کو غیر قانونی قرار دیا جائے۔

اِس سے قبل بھی چوہدری برادران کے خلاف 2000 میں تفتیش شروع کی گئی تھی۔ چوہدری پرویز الٰہی اور چوہدری شجاعت حسین پر 2000 میں 28 پلاٹس کی غیر قانونی خریداری پر اس وقت کے ڈپٹی چیئرمین نیب میجر جنرل ریٹائرڈ عثمان نے انکوائری کی منظوری دی تھی۔

Your browser doesn’t support HTML5

ہمیں خطرہ ہے تو اپنی پارٹی کے اندر سے ہے: جہانگیر ترین

کئی سال التوا کا شکار رہنے کے بعد 2017 میں ان کیسز کی دوبارہ انکوائری کا آغاز کیا گیا تھا جس کے بعد عدالت میں رپورٹ جمع ہوئی تھی۔ جس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ چوہدری پرویز الٰہی اور چوہدری شجاعت حسین کے خلاف کوئی بھی دستاویزی یا زبانی شواہد نہیں ملے۔

جس کے بعد لاہور کی احتساب عدالت نے دونوں کے خلاف نیب انکوائری بند کرنے کی منظوری دی تھی۔