پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے خصوصی ورچوئل اجلاس میں عالمی برادری کے سامنے کرونا وائرس سے دنیا کے ترقی پذیر ممالک کی معیشتوں پر مرتب ہونے والے اثرات سے نمٹنے کے لیے 10 نکاتی مجوزہ ایجنڈا پیش کیا ہے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ ان کے پیش کردہ ایجنڈے پر عمل کرنے سے ترقی پذیر ممالک کی معیشتوں پر مرتب ہونے والے غیر معمولی منفی اثرات میں کمی لا کر ان کو بحال کرنے میں مدد ملی سکتی ہے۔
نیویارک میں جنرل اسمبلی کے دو روزہ خصوصی اجلاس سے دیگر عالمی رہنماؤں کے علاوہ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس اور جنرل اسمبلی کے صدر وولکن بوزکر نے بھی خطاب کیا۔
یہ اجلاس کرونا وائرس سے عالمی صحتِ عامہ کے غیر معمولی بحران سے نمٹنے کے لیے ایک مشترکہ لائحہ عمل وضع کرنے کے لیے بلایا گیا ہے۔ اجلاس کے لیے تین اور چار دسمبر کے دن مقرر کیے گئے تھے۔
پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے خصوصی ورچوئل اجلاس میں 10 نکاتی ایجنڈا تجویز کرتے ہوئے کہا کہ عالمی وبا کے خاتمے کے تک کم آمدن اور معاشی دباؤ کا شکار ممالک کے قرضوں کی شرائط اور مدت کا از سرِ نو تعین کیا جائے۔ عمران خان نےمعاشی دباؤ کے شکار ممالک کے قرضوں کو معاف کرنے کی بھی تجویز دی۔
وزیرِ اعظم نے وبا کی وجہ سے متاثر ہونے والے ممالک کے لیے 500 ارب ڈالر کا خصوصی فنڈ قائم کرنے کی بھی تجویز دی۔
انہوں نے کم ترقی پذیر ممالک کے لیے رعایتی شرائط پر قرضوں کی فراہمی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ کم شرح سود پر محدود مدت کے قرضے فراہم کیے جائیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
وزیرِ اعظم نے بنیادی ڈھانچے کی پائیدار ترقی کے لیے ڈیڑھ کھرب ڈالر کی سرمایہ کاری کی تجویز بھی دی۔
اس کے علاہ انہوں نے ترقی پذیر ممالک کو آب و ہوا کی تبدیلی سے درپیش مسائل سے نمٹنے کے لیے 100 ارب ڈالرز فراہم کرنے کی تجویز دی۔
عمران خان نے ترقی پذیر ممالک سے امیر ممالک میں غیر قانونی طور پر منتقل ہونے والی رقوم کی واپسی کو یقینی بنانے کے اقدامات کرنے کو بھی تجاویز میں شامل کیا۔
عمران خان کے بقول کرونا وائرس کی وجہ سے تمام ممالک متاثر ہوئے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں 10 کروڑ افراد خطِ غربت سے نیچے چلے گئے ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ امیر ممالک نےاپنی معیشتوں کی بحالی کے لیے 13 کھرب ڈالرز فراہم کیے ہیں، لیکن ترقی پذیر معیشتوں کو بحال کرنے کے لیے اتنے وسائل میسر نہیں ہیں اور وہ اپنی معیشت کی بحالی کے لیے اب تک 2 سے 3 کھرب ڈالر کا انتظام بھی نہیں کر سکے ہیں۔
عمران خان کے بقول اب تک ان کی حکومت اگرچہ کرونا وائرس کی وبا کی وجہ سے صحتِ عامہ اور معاشی مسائل کو حل کرنے کے وسائل فراہم کرتی آ رہی ہے، لیکن اب پاکستان کو وائرس کی دوسری شدید لہر کا سامنا ہے۔ جس کی وجہ سے نہ صرف حکومت کو معاشی شرح نمو کو برقرار رکھنے بلکہ مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا چیلنج بھی درپیش ہے۔
اس حوالے سے اقتصادی امور کے ماہر فرخ سلیم نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت دنیا کے تمام ممالک کو بھی کرونا وائرس کی وجہ سے ایک مشکل صورتِ حال کا سامنا ہے۔ اس لیے امیر ممالک کے لیے ترقی پذیر ممالک کو اضافی فنڈز فراہم کرنا شاید ممکن نہیں ہے۔ کیوں کہ ان کی اپنی معیشت بھی وائرس کی وجہ سے بحران کا شکار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ شاید امیر ممالک کے فراہم کردہ قرضوں کی ادائیگی کو مؤخر کرنے کے لیے انہیں راضی کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ترقی پذیر ممالک کو در پیش مالی بحران سے نمٹنے کے لیے اضافی فنڈز فراہم کرنا شاید آسان نہیں ہو گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
دنیا کے امیر ترین ممالک کے گروپ جی-20 نے روال سال مئی میں دنیا کے ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کے قرضوں کی ادائیگی میں چھوٹ دینے کا اعلان کیا تھا اور اب اس سہولت میں آئندہ سال جون تک توسیع کی گئی ہے۔
پاکستان کے وزیرِ اعظم نے دنیا کے امیر ممالک، عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) اور ورلڈ بینک کے ترقی پذیر ممالک کو فراہم کی جانے والی معاونت کو سراہا۔ البتہ ان کا کہنا تھا کہ اب تک وبا سے مرتب ہونے اثرات سے نمٹنے کے لیے جتنے وسائل فراہم کیے گئے ہیں وہ کافی نہیں ہیں۔