بھارتی کشمیر میں صدر راج نافذ

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی 87 ارکان پر مشتمل اسمبلی کو موجودہ گورنر ستیہ پال ملک نے اس سال 21 نومبر کو تحلیل کردیا تھا۔ (فائل فوٹو)

ریاست میں 1989ء کے اختتام پر مقامی مسلم نوجوانوں کی طرف سے آزادی کے لیے مسلح جدوجہد شروع کیے جانے کے بعد سے دوسری مرتبہ صدر راج نافذ کیا جا رہا ہے۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں بُدھ کی رات سے صدر راج نافذ کیا جارہا ہے جس کے ساتھ ہی ریاست کے انتظامی، قانون سازی اور دوسرے امور پر نئی دہلی کو براہِ راست کنٹرول حاصل ہوجائے گا۔

بھارت کی وفاقی حکومت نے ریاست میں صدر راج نافذ کرنے کی سفارش کی ہے اور اب صدر رام ناتھ کووند کی طرف سے باضابطہ صدر راج نافذ کرنے کے نوٹیفکیشن کا اجرا کسی بھی وقت متوقع ہے۔

صدر راج ریاست میں گورنر راج کے چھ ماہ مکمل ہونے پر نافذ کیا جارہا ہے۔

بھارتی کشمیر میں گورنر راج رواں سال 20 جون کو اس وقت نافذ کیا گیا تھا جب بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی ) علاقائی سیاسی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے ساتھ ریاست پر 27 ماہ تک حکومت کرنے کے بعد حکومت سے اچانک علیحدہ ہوگئی تھی۔

وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی کی سربراہی میں کام کرنے والی پی ڈی پی - بی جے پی مخلوط حکومت کے گرجانے کے بعد کسی بھی سیاسی جماعت نے نئی حکومت بنانے کے قابل ہونے کا دعویٰ نہیں کیا تھا جس کے بعد اُس وقت کے گورنر نریندر ناتھ ووہرا کی سفارش پر بھارت کے صدر نے ریاست میں گورنر راج نافذ کردیا تھا۔

صدر راج کب لگتا ہے؟

کشمیر کو آئینِ ہند کی دفعہ 370 کے تحت وفاق میں ایک خصوصی مقام حاصل ہے۔

ریاست کا اپنا آئین ہے جس کی دفعہ 92 کے تحت ریاست میں ایک منتخب عوامی حکومت کی عدم موجودگی میں چھ ماہ تک گورنر راج نافذ کیا جاسکتا ہے۔

بھارت کی دوسری ریاستوں میں ایسی کسی صورتِ حال میں آئینِ ہند کی دفعہ 356 کے تحت صدر راج نافذ کیا جاتا ہے۔ اس دفعہ کا بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر پر اطلاق نہیں ہوتا ہے۔

تاہم گورنر راج کی مقررہ چھ ماہ کی مدت مکمل ہونے اور گورنر کی طرف سے باضابطہ استدعا موصول ہونے پر نئی دہلی کی وفاقی حکومت صدرِ مملکت سے ریاست میں صدر راج نافذ کرنے کی سفارش کرسکتی ہے۔

وزیرِ اعظم کی سربراہی میں وفاقی کابینہ کی باضابطہ سفارش موصول ہونے پر صدر ریاست جموں و کشمیر میں آئینِ ہند کی دفعہ 74 (1) (ا) کے تحت چھ ماہ تک صدر راج نافذ کرنے کے مجاز ہیں۔

یہ مدت چھ، چھ ماہ کے بعد کل تین سال تک بڑھائی جاسکتی ہے۔ تین سال مکمل ہونے پر صدر راج کی مدت میں صرف بھارت کے الیکشن کمیشن کی اس تصدیق کی صورت ہی میں توسیع کی جاسکتی ہے کہ اسے ریاستی اسمبلی کے لیے انتخابات منعقد کرانے میں مشکل پیش آرہی ہے۔

ریاست کی تاریخ کا دوسرا صدر راج

ریاست میں 1989ء کے اختتام پر مقامی مسلم نوجوانوں کی طرف سے آزادی کے لیے مسلح جدوجہد شروع کیے جانے کے بعد سے دوسری مرتبہ صدر راج نافذ کیا جا رہا ہے۔

اس سے پہلے ریاست میں 1990ء کے وسط میں صدر راج نافذ کیا گیا تھا جو 1996ء میں ریاستی اسمبلی کے لیے ہونے والے عام انتخابات کے بعد منتخب حکومت کے قیام پر اختتام کو پہنچا تھا۔

تاہم بھارتی حکام نے عندیہ دیا ہے کہ اس مرتبہ ریاست میں صدر راج کی مدت کم سے کم رکھنے کی کوشش کی جائے گی۔

حکام نے یہ عندیہ بھی دیا ہے کہ بھارت میں اگلے سال ہونے والے عام انتخابات کے ساتھ ہی ریاستی اسمبلی کے لیے بھی چناؤ کرائے جاسکتے ہیں۔

ریاستی اسمبلی کے لیے آخری بار 2014ء کے اواخر میں انتخابات کرائے گئے تھے۔ لیکن ان کے نتیجے میں چھ سال کے لیے وجود میں آنے والی 87 ارکان پر مشتمل اسمبلی کو موجودہ گورنر ستیہ پال ملک نے اس سال 21 نومبر کو تحلیل کردیا تھا اور اس طرح اسمبلی مقررہ مدت پوری نہیں کرپائی تھی۔

گورنر نے یہ قدم پی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی اور ایک اور علاقائی جماعت پیپلز کانفرنس کے چیئرمین سجاد غنی لون کی طرف سے الگ، الگ یہ دعویٰ پیش کیے جانے کے فوراً بعد اُٹھایا تھا کہ انہیں نئی حکومت بنانے کے لیے ارکان کی مطلوبہ تعداد کی حمایت حاصل ہوگئی ہے۔

کشمیری رہنماؤں کا فوری انتخابات کرانے کا مطالبہ

ریاست کے ایک سابق وزیرِ اعلیٰ اور علاقائی جماعت نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبد اللہ نے نئے اسمبلی انتخابات فوری طور پر کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔

بُدھ کو سرینگر میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ریاست میں گورنر اور صدر راج ختم ہونا چاہیے اور ایک منتخب عوامی حکومت قائم ہونی چاہیے۔

کئی دوسری بھارت نواز سیاسی جماعتوں نے بھی جو مقامی اصطلاح میں مرکزی دھارے میں شامل جماعتیں کہلاتی ہیں ریاست میں مزید کسی تاخیر کے بغیر نئے انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔

تاہم بھارتیہ جنتا پارٹی کا استدلال ہے کہ چونکہ ریاست کو درپیش انتظامی اور سکیورٹی مسائل اور چیلینجز سے گورنر ملک خوش اسلوبی کے ساتھ نمٹ رہے ہیں، اس لیے ریاست میں گورنر یا صدر راج مزید کچھ عرصے تک جاری رہنا چاہیے۔

علاقائی جماعت عوامی اتحاد پارٹی کے سربراہ انجینئر رشید نے اسے بدنیتی پر مبنی مطالبہ قرار دیا ہے۔

انہوں نے الزام لگایا ہے کہ گورنر ملک ایسے انتظامی اور آئینی امور میں بھی دخل اندازی کے مرتکب ہو رہے ہیں جو ان کے دائرۂ اختیار میں نہیں ہیں اور اس طرح ریاست کو حاصل خصوصی پوزیشن کو کمزور کرنے کی دانستہ کوششیں کی جا رہی ہیں۔