پاکستان میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں کو ان دنوں اس بات پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ وہ ایک طرف سیاست سے فوج کی مداخلت ختم کرنے کے مطالبات کر رہے ہیں تو دوسری طرف سیاسی معاملات پر فوج سے خفیہ اجلاس میں رہنمائی بھی لے رہے ہیں۔
حکومت اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے پارلیمانی رہنماؤں اور وفاقی وزرا نے گزشتہ ہفتے عسکری قیادت سے ایک ملاقات کی تھی۔
بتایا جاتا ہے کہ سیاسی و فوجی قیادت کا یہ اِن کیمرہ اجلاس گلگت بلتستان کو صوبے کا آئینی درجہ دینے کے لیے اتفاق رائے کے لیے بلایا گیا تھا۔
تاہم اس ملاقات کو ایسے وقت پر ظاہر کیا گیا ہے جب اتوار کو حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے فوج کے سیاست میں کردار پر اعلانیہ تحفظات کا اظہار کیا۔
حزبِ اختلاف کے سیاسی رہنما سمجھتے ہیں کہ وفاقی وزرا کی جانب سے اس بند کمرۂ ملاقات کو عام کرنے کا مقصد کُل جماعتی کانفرس کو سبوتاژ کرنا ہے۔
حزبِ اختلاف کے رہنما عسکری قیادت سے ملاقات کی خبر سامنے آنے کے بعد اب کھل کر اس ملاقات پر اظہارِ رائے کر رہے ہیں۔
آرمی چیف اور ڈی جی ایس آئی سے پارلیمانی رہنماؤں کی ملاقات میں ن لیگ کی قیادت سے کیا بات ہوئی؟خواجہ آصف اور شہباز شریف سے آرمی چیف نے کیا کہا ، کن سیاسی معاملات پر بات ہوئی اور وزیر اعظم کی غیر حاضری سے متعلق کیا سوالات اٹھائے گئے؟دیکھئے خواجہ آصف کا موقف pic.twitter.com/HO6lJBgpyL
— Shahzeb Khanzada (@shazbkhanzdaGEO) September 22, 2020
اجلاس کے طے شدہ اصول کے مطابق گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت سے متعلق منعقدہ اس اجلاس کو عام نہیں کیا جانا تھا۔ اس کے باوجود اجلاس کی بازگشت ٹی وی چینلز پر موضوعِ بحث بنی رہی۔
پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن کہتی ہیں کہ یہ اجلاس گلگت بلتستان کے آئینی حقوق کے حوالے سے بلایا گیا تھا تاہم حکومتی وزرا نے بند کمرہ اجلاس کو موضوع بحث بنا کر نئی روایت قائم کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اجلاس میں گلگت بلتستان کو صوبے کا عارضی درجہ دینے اور اس کے آئندہ انتخابات کی شفافیت کے حوالے سے بات کی تھی۔
اجلاس میں کیا بات ہوئی؟
حزبِ اختلاف کے رہنماؤں نے قومی احتساب بیورو (نیب) کے سیاسی رہنماؤں پر مقدمات اور فوج کی سیاست میں مداخلت پر اپنے تحفظات کا بھی اظہار کیا۔
اجلاس کے دوران آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ سیاسی معاملات میں فوج کا عمل دخل نہیں ہے اور یہ کام سیاست دانوں کو کرنا ہے۔ دفاعی ادارے کو سیاست میں ملوث نہ کیا جائے۔
آرمی چیف کے بقول فوج کا ملک میں کسی بھی سیاسی عمل سے براہِ راست یا بالواسطہ عمل دخل نہیں ہے۔
فوج کے سربراہ کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) جنرل فیض حمید بھی موجود تھے۔
قائد حزبِ اختلاف شہباز شریف کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی خواجہ آصف، احسن اقبال، پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور شیری رحمٰن، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق، عوامی نیشنل پارٹی کے امیر حیدر ہوتی، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے اسد محمود سمیت بعض حکومتی وزرا بھی اجلاس میں شریک تھے۔
وفاقی وزیر شیخ رشید نے اس اجلاس کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا تھا کہ اجلاس میں آرمی چیف نے کہا تھا کہ فوج کو ملکی سلامتی اور جمہوریت عزیز ہے اور آرمی ہر منتخب حکومت کے حکم کی پابند ہے۔
شیخ رشید کے بقول آرمی چیف نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے سربراہ کی تقرری حکومت و اپوزیشن نے اتفاق رائے سے کی ہے اور انتخابی اصلاحات بھی سیاست دانوں کو کرنا ہیں، تو فوج وہی کردار ادا کرے گی جس کا کہا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ جنرل قمر باجوہ نے سیاست دانوں پر احتساب کے نام پر گرفتاریوں اور مقدمات کے حوالے سے کہا کہ نیب کے چیئرمین کا تقرر سیاست دانوں نے کیا تھا۔