امریکی سرحد پر غیر قانونی تارکینِ وطن سے الگ کیے گئے 545 بچوں کے والدین کی تلاش

غیر قانونی طور پر سرحد پار کرنے والی ایک خاتون اپنے بچے کے ساتھ۔۔۔ فائل فوٹو

عدالت کی جانب سے مقرر کردہ وکلا نے منگل کے روز بتایا کہ وہ ان 545 بچوں کے والدین کو تلاش کرنے میں ناکام رہے ہیں، جنہیں سن 2017 سے 2018 کے درمیان اپنے بچوں سے اس وقت الگ کر دیا گیا تھا جب انہوں نے امریکہ کی میکسیکو سے متصل سرحد عبور کی تھی۔

قانون کے تحت غیر قانونی سرحد عبور کرنے والے بالغ افراد اور بچوں کو الگ الگ حراستی مراکز میں رکھا جاتا ہے۔

ان بچوں کو جولائی 2017 سے لے کر جون 2018 کے درمیان اپنے والدین سے علیحدہ کر دیا گیا تھا، جس کے بعد سین ڈی آگو کے ایک فیڈرل جج نے حکم دیا تھا کہ حکومت کی تحویل میں موجود بچوں کو ان کے والدین سے دوبارہ ملا دیا جائے۔

ایسے بچوں کو ڈھونڈ نکالنا مشکل ہے، کیونکہ حکومت کے پاس ان کی کھوج کا مناسب نظام موجود نہیں ہے۔ رضاکار ان بچوں یا ان کے والدین کو تلاش کرنے کے لیے گوئٹے مالا اور ہنڈورس میں گھر گھر گئے۔

فلوریڈا کے ایک مرکز میں رکھے گئے چند غیر قانونی تارکین وطن بچے ، فائل فوٹو


جون 2018 میں میکسیکو سے غیر قانونی طور پر امریکہ کی سرحد عبور کرنے والے خاندانوں کے 2700 سے زیادہ بچوں کو' زیرو ٹالیرینس' پالیسی (کوئی رعایت اور نرمی نہیں) کے تحت ان کے والدین سے جدا کر دیا گیا تھا۔ اس طریقہ کار کو اس وقت روک دیا گیا جب امریکہ کی ایک ڈسٹرکٹ جج نے اسے ختم کرنے کا حکم دیا تھا۔

اس کاروائی پر بین الاقوامی سطح پر بھی امریکہ پر تنقید کی گئی تھی۔
ہر چند کہ عدالت کے حکم پر ان خاندانوں کو کو دوبارہ سے ملا دیا گیا تھا، تاہم حکام کو بعد میں معلوم ہوا کہ 2017 کے موسم سرما سے لے کر نومبر 2017 تک 1556 بچوں کو 'زیرو ٹالیرینس' پالیسی کے تحت ان کے والدین سے الگ کر دیا گیا تھا۔ تاہم ان اعداد کو ظاہر نہیں کیا گیا تھا۔

اس پالیسی کے تحت ہونے والی کاروائی کے خلاف عدالت میں جانے والی شہری حقوق کی تنظیم 'امیریکن سول لبرٹیز یونین' کا کہنا تھا کہ عدالت نے 485 بچوں کے والدین کی تلاش کے لیے ایک انتظامیہ کمیٹی تشکیل دی تھی۔ انتظامیہ کمیٹی کو امریکی حکام سے 1030 بچوں کے ٹیلی فون نمبر موصول ہوئے، جن میں سے 545 بچوں کے متعلق کچھ معلوم نہیں ہو سکا ہے۔

SEE ALSO: غیر قانونی تارکین وطن کے تحفظ کے پروگرام کی منسوخی کے بعد

امیریکن سول لبرٹیز یونین کا کہنا ہے کہ ان 545 بچوں میں دو تہائی کے والدن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے آبائی وطن لوٹ گئے تھے۔

یونین نے عدالت کو بتایا کہ رضاکاروں نے بڑی محنت اور لگن سے بہت وقت لگا کر ان بچوں کے آبائی وطنوں میں جا کر ان بچوں کے والدین کو ڈھونڈنے کی کوشش کی۔

لیکن بعد ازاں اس تلاش کو کرونا وائرس سے پھیلنے والی عالمی وبا کی وجہ سے روک دیا گیا تھا۔ تاہم اب محدود پیمانے پر تلاش کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا گیا ہے۔

انتظامیہ کمیٹی نے متاثرہ خاندانوں تک پہنچنے کے لیے،ہسپانوی زبان میں مفت ٹیلی فون نمبروں کی بھی تشہیر کی ہے۔