فلسطینی صدر محمود عباس نے ہفتے کے روز کہا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اعلان کردہ مشرق وسطیٰ امن منصوبہ مسترد کر دیا ہے، اور ساتھ ہی اعلان کیا کہ فلسطینی اتھارٹی نے سیکیورٹی تعلقات سمیت امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ تمام رابطے ختم کر دیے ہیں۔
قاہرہ میں عرب لیگ کے وزرائے خارجہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے، محمود عباس نے ٹرمپ کے امن منصوبے کو مسترد کرنے کا اعادہ کیا، جس میں اسرائیلی سلامتی کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے فلسطین کے ساتھ سرحدوں کو غیر عسکری قرار دیا گیا ہے۔
عرب لیگ کا یہ ایک روزہ اجلاس صدر ٹرمپ کے امن منصوبے پر غور کے لیے منعقد کیا گیا تھا۔
عباس نے کہا کہ ''ہم نے اسرائیل کو اطلاع دی ہے کہ ان سے اور امریکہ کے ساتھ کوئی تعلقات نہیں ہوں گے، جن میں سلامتی کے تعلقات شامل ہیں''۔
اسرائیلی حکام کی جانب سے اس بیان پر کوئی فوری رد عمل سامنے نہیں آیا۔
اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کی سیکیورٹی فورسز نے فلسطینی کنٹرول کے مقبوضہ مغربی کنارے کی نگرانی کے سلسلے میں طویل عرصے سے ایک دوسرے سے تعاون جاری رکھا ہوا ہے۔ انٹیلی جینس کی شراکت کے معاملے پر بھی فلسطینی اتھارٹی نے سی آئی اے کے ساتھ تعاون سے متعلق سمجھوتے کر رکھے ہیں، اور یہ تعاون 2017ء میں فلسطینیوں کی طرف سے ٹرمپ انتظامیہ کی امن کی کوششوں کے بائیکاٹ کے باوجود جاری رہا ہے۔
عباس نے یہ بھی کہا کہ انھوں نے ٹرمپ کے ساتھ ''امن منصوبے پر ٹیلی فون پر بات چیت کرنے، یہاں تک کہ مطالعے کے لیے منصوبے کی دستاویز کی نقول حاصل کرنے سے انکار کیا ہے''۔
بقول ان کے، ''ٹرمپ نے کہا تھا کہ میں ان سے ٹیلی فون پر بات کروں۔ لیکن، میں نے کہا کہ نہیں۔ اور یہ کہ وہ ایک مراسلہ بھیجنا چاہتے ہیں۔ لیکن، میں نے انکار کیا ہے''۔
ٹرمپ نے امن منصوبے کا اعلان منگل کے روز کیا تھا۔ منصوبے میں امریکہ نے مقبوضہ مغربی کنارے کی زمین کو اسرائیلی بستیوں کے طور پر اور یروشلم کو اسرائیل کا ناقابل تقسیم دارلحکومت تسلیم کیا گیا ہے۔