رسائی کے لنکس

عالمی برادری صدر ٹرمپ کے مجوزہ امن منصوبے کا بائیکاٹ کرے: فلسطین


فلسطینی حکام نے مجوزہ منصوبے کو اسرائیل نواز اور دو ریاستی حل کے منافی قرار دیتے ہوئے عالمی برادری سے اس کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی ہے۔ (فائل فوٹو)
فلسطینی حکام نے مجوزہ منصوبے کو اسرائیل نواز اور دو ریاستی حل کے منافی قرار دیتے ہوئے عالمی برادری سے اس کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی ہے۔ (فائل فوٹو)

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ وہ منگل کو اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کے ہمراہ مشرقِ وسطیٰ امن منصوبے کا اعلان کریں گے۔ صدر کے بقول یہ منصوبہ اسرائیل، فلسطین تنازع کے حل کے لیے بہت سود مند ہو گا۔

فلسطینی حکام نے مجوزہ منصوبے کو اسرائیل نواز اور دو ریاستی حل کے منافی قرار دیتے ہوئے عالمی برادری سے اس کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی ہے۔

عرصہ دراز سے صیغہ راز میں رکھے جانے والے اس مجوزہ منصوبے کا اعلان منگل کو وائٹ ہاؤس میں کیا جائے گا۔

تاہم مشرقِ وسطی کے اُمور پر نظر رکھنے والے ماہرین فلسطین کے تحفظات کے باعث اس منصوبے کے مستقبل کے حوالے سے زیادہ پر اُمید نہیں ہیں۔

ماہرین کے بقول صدر ٹرمپ اور مشرقِ وسطیٰ میں اُن کے حلیف بنیا مین نیتن یاہو منصوبے سے سیاسی فوائد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکی سینیٹ میں مواخذے کی کارروائی کا سامنا ہے جب کہ اسرائیلی وزیرِ اعظم پر بھی کرپشن کے الزامات ہیں۔

پیر کو اسرائیلی وزیرِ اعظم سے اوول آفس میں ملاقات کے دوران صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ یہ امن منصوبہ، مشرقِ وسطیٰ میں قیام امن کے لیے اہم موقع ہو سکتا ہے۔

صدر ٹرمپ کے مجوزہ امن منصوبے کی بعض عرب ممالک نے حمایت بھی کی ہے۔ خود صدر ٹرمپ کا یہ دعویٰ ہے کہ فلسطینی بھی اس منصوبے کو پسند کریں گے۔

صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ "یہ منصوبہ فلسطینیوں کے لیے بہت اچھا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آخر کار وہ بھی اسے تسلیم کر لیں گے۔"

ملاقات کے دوران اسرائیلی وزیرِ اعظم نے صدر ٹرمپ کی تعریف کرتے ہوئے مجوزہ منصوبے کو 'صدی کا سب سے بڑا معاہدہ' قرار دیا تھا۔

مجوزہ منصوبے کے خدوحال

امریکہ کے اس مجوزہ منصوبے میں 1967 کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیل کی جانب سے قبضے میں لیے گئے غرب اردن کے بعض علاقوں کا اسرائیل میں انضمام شامل ہے۔

اسرائیل کے وزیرِ اعظم نے گزشتہ برس ستمبر میں ہونے والے انتخابات سے قبل بھی ان علاقوں کو مستقل طور پر اسرائیل کا حصہ بنانے کا عندیہ دیا تھا۔

بعض اسرائیلی حکام کا دعویٰ ہے کہ مجوزہ منصوبے میں مغربی کنارے میں قائم یہودی بستیوں سمیت بڑے حصے کو اسرائیل میں شامل کیا جائے گا۔

خیال رہے کہ عرب، اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیل نے غرب اردن، مشرقی یروشلم، غزہ اور گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ 1981 میں اس نے مشرقی یروشلم اور گولان کی پہاڑیوں کو اپنا حصہ بنا لیا تھا۔ لیکن عالمی سطح پر اس اقدام کو تسلیم نہیں کیا گیا تھا۔

فلسطین کا مؤقف

فلسطین کا یہ مؤقف رہا ہے کہ امریکی صدر کے داماد جیراڈ کشنر کی نگرانی میں تیار ہونے والے اس منصوبے پر اُن سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔ اور نہ ہی وائٹ ہاؤس میں کسی فلسطینی نمائندے کو دعوت دی گئی ہے۔

فلسطین کی خودمختار انتظامیہ کے وزیرِ اعظم محمد اشتیہ نے عالمی برادری سے اپیل کی تھی کہ وہ اس امن منصوبے کا مکمل بائیکاٹ کریں۔ جو اُن کے نزدیک صدر ٹرمپ کو مواخذے اور اسرائیلی وزیر اعظم کو جیل جانے سے بچانے کی ایک کوشش ہے۔

فلسطینی وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ یہ کسی صورت مشرقِ وسطیٰ امن منصوبہ نہیں ہو سکتا۔ یہ اسرائیل کو فلسطینی علاقوں کا قبضہ دینے کے مترادف ہے۔

خیال رہے کہ امریکہ نے عالمی اتفاق رائے کو نظر انداز کرتے ہوئے امریکی سفارت خانہ یروشلم منتقل کر لیا تھا۔ بعض مغربی ممالک اور مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کے حلیف ممالک نے بھی امریکہ کے اس اقدام کی مخالفت کی تھی۔

XS
SM
MD
LG