اسرائیل انسانی حقوق واچ کے کسی نمائندے کو ملک سے بے دخل کرنے والا پہلا جمہوری ملک بن گیا ہے۔ اسرائیل اور فلسطین سے متعلق ہیومن رائٹس واچ کے ڈائریکٹر عمر شاکر کو پیر کے روز ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس سے قبل گزشتہ ہفتے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے انہیں ملک سے نکالنے کے حکومتی فیصلے پر نظرثانی کی درخواست مسترد کر دی تھی۔
شاکر پر فلسطینی قیادت کی جانب سے چلائی جانے والی اسرائیل کے بائیکائٹ سے متعلق تحریک کی حمایت الزام عائد کیا گیا ہے، جس کی وہ تردید کرتے ہیں۔
اتوار کے روز انہوں نے کہا کہ وہ اپنے عہدے پر برقرار رہیں گے اور بیرون ملک سے اسرائیل اور فلسطینی علاقوں میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں لکھتے رہیں گے۔
انسانی حقوق کا گروپ ہیومن رائٹس واچ اور شاکر اسرائیل سے ان کے اخراج کی طویل قانونی جنگ اس جواز کے ساتھ لڑ چکے ہیں کہ انہوں نے اسرائیل کے بائیکاٹ کی کوئی حمایت نہیں کی ہے۔
نیویارک میں قائم گروپ نے کہا ہے کہ وہ سرمایہ کاری اور اقتصادی پابندیوں سے متعلق بین الاقوامی بائیکاٹ کی فلسطینی قیادت کی تحریک بی ڈی ایس کی حمایت نہیں کرتا۔
انسانی حقوق کے گروپ ہیومن رائٹس واچ کے ایکزیکٹو ڈائریکٹر کینتھ روتھ کہتے ہیں کہ ہیومن رائٹس واچ کے ساتھ وابستگی کے اپنے تمام عرصے میں عمر نے تنظیم کے موقف کو واضح طور پر برقرار رکھا ہے اور ہم بی ڈی ایس کی حمایت نہیں کرتے۔ اس لیے اسرائیلی حکومت کبھی بھی کوئی ایک بھی ایسا ثبوت پیش نہیں کر سکی جس میں عمر نے ہیومن رائٹس واچ کے موقف سے انحراف کیا ہو۔
ہیومن رائٹس واچ کا موقف یہ ہے کہ اسرائیل کو مقبوضہ علاقوں سے جانا چاہیے اور اپنے عرب شہریوں کو وہی حقوق دینے چاہیئیں جو وہ اسرائیلیوں کو دیتا ہے۔
2017 کا ایک اسرائیلی قانون کسی بھی ایسے غیر ملکی کو داخلے، ویزے یا رہائش کی اجازت سے انکار کرتا ہے جو اسرائیل یا اس کے کنٹرول کے کسی علاقے، یعنی اسرائیلی بستیوں کے بائیکاٹ کی تحریک کی حمایت کرتا ہے۔ اس قانون کو اس سال کے شروع میں اسرائیل اور مغربی کنارے میں امریکی قانون سازوں، رشیدہ طلیب اور الہان عمر کے داخلے پر پابندی کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔
عمر شاکر کا کہنا ہے کہ اس قانون کو انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں کو اظہار رائے سے روکنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
عمر شاکر کہتے ہیں کہ میرے معاملے میں جو کچھ ہوا اس میں کوئی خاص بات نہیں تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایسے میں پیش آیا ہے جب اسرائیلی حکومت انسانی حقوق کی وکالت کو دبانے کی دوسری بہت سی کوششیں کر رہی ہے، جن کا آغاز ان قوانین سے ہوا جن میں لوگوں کو اپنی رائے کے پرامن اظہار کی بنا پر اسرائیل میں داخلے کی ممانعت کی گئی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ انسانی حقوق کے اسرائیلی گروپس پر ریاست کو بدنام کرنے کے الزام عائد کیے گئے ہیں اور ان سرگرمیوں کی وجہ سے ان پر تنقید کی گئی ہے اور ہم جانتے ہیں کہ فلسطینیوں کو صرف اپنے انسانی حقوق کی وکالت کی وجہ سے جرائم کے الزامات اور سفری پابندیوں کا سامنا ہوا ہے۔
یروشلم میں قائم تنظیم این جی او مانیٹر نے جو شاکر کے ملک سے اخراج سے متعلق اسرائیل کے حق کا دفاع کر چکی ہے، کہا ہے کہ اس سے انسانی حقوق کے گروپس کی جوابدہی کو فروغ ملتا ہے۔
گروپ سے وابستہ ایک عہدے دار گیرالڈ سٹین برگ کہتے ہیں کہ یہ بنیادی طور پر وہی پالیسی ہے کہ جو کوئی بھی دوسرا جمہوری ملک رکھتا ہے۔ کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ آپ کے ملک میں داخل ہونے کے لیے آپ کو دھمکائے۔ اگر وہ آپ کو دھمکانا چاہتا ہے تو اسے یہ کام اسرائیل سے باہر رہ کر کرنا ہو گا۔
اقوام متحدہ، یورپی یونین اور انسانی حقوق کے بہت سے گروپس مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی بستیوں کو غیر قانونی سمجھتے ہیں۔ لیکن ٹرمپ انتظامیہ نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ وہ امریکہ کی ایک عرصے سے جاری اس پالیسی کو پلٹ رہے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ بستیاں بین الاقوامی قانون سے مطابقت نہیں رکھتیں۔