کرونا وائرس: چین میں زیرِ تعلیم پاکستانی طلبہ کے اہلِ خانہ تشویش میں مبتلا

کرونا وائرس سے متاثرہ چین کے شہر ووہان میں 500 سے زائد طلبہ اور ديگر پاکستانی شہری مقيم ہيں۔ (فائل فوٹو)

پاکستان نے مہلک کرونا وائرس کے بڑھتے ہوئے خطرات کے پيش نظر چين ميں اپنے شہريوں کو سخت احتياطی تدابير اختيار کرنے کی تاکيد کی ہے۔ تاہم پاکستان میں موجود ووہان میں رہائش پذیر شہریوں کو کہا گیا ہے کہ وہ چينی انتظاميہ کی جانب سے جاری کردہ ہدايات پر عمل درآمد کو يقينی بنائیں۔

دفتر خارجہ کے مطابق اس وقت ووہان شہر ميں 500 سے زائد طلبہ اور ديگر شہری مقيم ہيں اور وہ سب کرونا وائرس سے محفوظ ہيں۔ تاہم اُنہيں اپنے اپارٹمنٹس ميں ہی رہنے کی تاکيد کی گئی ہے۔

کرونا وائرس سے ہلاکتوں کی خبریں سامنے آنے کے بعد پاکستان ميں مقيم خاندانوں نے چين میں اپنے پياروں سے متعلق شديد تشويش کا اظہار کيا ہے۔

پشاور کے رہائشی محمد کامران شرين کے مطابق اُن کے بھائی عدنان شرين اپنی فيملی کے ہمراہ چین کے شہر ووہان ميں مقيم ہيں جہاں وہ بائیو ٹيکنالوجی کے ڈيپارٹمنٹ ميں پی ايچ ڈی کر رہے ہيں۔

وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتايا کہ جب سے اُنہيں اس مہلک وائرس کے بارے ميں پتا چلا ہے تو وہ روزانہ اپنے بھائی اور ان کی فيملی سے فون پر بات کرتے ہيں۔

کامران شرین کے مطابق جب سے انہیں کرونا وائرس کے بارے میں پتا چلا وہ اپنے بھائی کو روزانہ فون کرتے ہیں۔


اُن کے مطابق ان کا پورا گھرانہ شديد پريشانی کا شکار ہے اور وہ چاہتے ہيں کہ عدنان شرین جلد از جلد واپس اپنے ملک خير خيريت سے پہنچ جائيں۔

کامران نے مزید بتایا کہ اُن کے بھائی نے انہيں بتايا ہے کہ ہر قسم کی ٹرانسپورٹ بند ہے اور وہ ہاسٹل ميں ہی محصور ہيں۔

کرونا وائرس سے ہلاکتیں 80 ہو گئیں

کامران شرين نے پاکستانی حکومتی اقدامات پر سخت تنقيد کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو اپنے شہريوں کے بارے ميں سوچنا چاہیے۔ کرونا وائرس تيزی سے پھيل رہا ہے اور اس سے اموات ہو رہی ہیں، حکومت کو اپنے شہریوں کو ووہان میں مرنے کے لیے نہیں چھوڑنا چاہیے۔

اب تک چين ميں اس وائرس کی وجہ سے 80 افراد ہلاک اور تین ہزار سے زائد مختلف اسپتالوں میں زیرِ علاج ہیں۔

چین میں کرونا وائرس کے ایک انسان سے دوسرے میں منتقل ہونے کی تصدیق ہونے کے بعد کئی شہروں، عوامی مقامات اور سینما گھروں سمیت دیگر اہم سیاحتی مقامات کو بند کر دیا گیا ہے اور شہریوں کو سخت احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

چين کے علاوہ کرونا وائرس امريکہ، فرانس، آسٹريليا، کينيڈا، سنگاپور، تائیوان، ملائیشيا، جاپان، جنوبی کوريا اور نيپال تک پھيل چکا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق چين سے باہر کرونا وائرس کے 41 کيسز کی تصدیق ہو چکی ہے اور تقريباً تمام افراد نے حال ہی ميں ووہان کا سفر کيا تھا۔

پاکستان ميں اب تک يہ وائرس نہیں پہنچا۔ ليکن پاک چين اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت کام کی غرض سے ہزاروں کی تعداد ميں چينی شہری پاکستان کے مختلف علاقوں ميں کام کر رہے ہيں اور خدشہ ہے کہ کہيں ان کے ذريعے يہ مہلک وائرس پاکستان ميں نہ پھيل جائے۔

جمعے کو ملتان ايئر پورٹ پر ايک چينی شہری میں کرونا وائرس کی موجودگی کے شک کی بنياد پر نشتر اسپتال ميں داخل کيا گيا تھا۔ ڈاکٹروں کے مطابق مريض کے خون کے نمونے لے لیے گئے ہيں اور آئندہ چند دنوں ميں اس کی رپورٹ آ جائے گی۔

ياد رہے کہ پاکستان نے چار بڑے ائير پورٹس کراچی، اسلام آباد، ملتان اور پشاور ميں کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے اسکینرز لگا دیے ہیں۔

'چین کے تمام ادارے حرکت میں آچکے ہیں'

حبيب الرحمان کا تعلق صوبہ خيبر پختونخوا کے ضلع اورکزئی سے ہے۔ وہ گزشتہ ستمبر ميں جرنلزم اينڈ ماس کميونی کيشن ميں ايم فل کرنے کے لیے چین کے شہر ووہان گئے تھے۔

وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتايا کہ کرونا وائرس دسمبر ميں نمودار ہوا ليکن اس کو اتنا خطرناک نہیں تصور کيا گيا۔ تاہم اب ايک ہفتے سے چین کے تمام ادارے حرکت ميں آ چکے ہيں اور اس وقت پورے ووہان ميں ہنگامی حالت نافذ ہے۔

SEE ALSO: چین میں سفری پابندیاں مزید سخت، وائرس کئی ممالک تک منتقل

حبیب الرحمان کے بقول، "پورا ووہان شہر بند ہے۔ ايئر پورٹ، ريلوے اسٹيشن، بازار سب بند ہيں اور ہم صرف اپنے کمروں تک محدود ہيں اور باہر نکلے پر مکمل پابندی ہے۔"

تیئس سالہ حبيب الرحمان کے مطابق ہاسٹل کے کينٹين بند ہونے کی وجہ سے وہ اپنے لیے خود کھانا بناتے ہيں۔ ان کے بقول، ہمیں ہدایت کی گئی ہے کہ چہرے پر مسلسل ماسک پہن کر رکھیں اور زیادہ سے زیادہ ہاتھ دھونے ہیں۔

حبیب الرحمان کے مطابق تمام طلبہ پريشان ہيں اور اگر کسی کے سر يا پيٹ ميں معمولی سا بھی درد ہو تو وہ کرونا وائرس کے خوف کا شکار ہو جاتا ہے۔ يہاں طلبہ کے ساتھ موجود فیملیز بھی کرونا وائرس کے تیزی سے پھیلنے کی وجہ سے خوف میں مبتلا ہیں۔

'والدین کو بتایا تو وہ واپس جانے نہیں دیں گے'

ان کے مطابق چین ميں نئے سال کی مناسبت سے يونيورسٹی ميں چھٹياں ہيں اور زيادہ تر پاکستان جانے والے طالب علم بھی واپسی کے بارے ميں پريشان ہيں۔

سوات کے رہائشی اياز احمد حال ہی میں ووہان سے موسمِ سرما کی چھٹياں گزارنے پاکستان آئے ہيں۔ ان کی واپسی 10 فروری کو تھی ليکن حالات کے پيش نظر انہوں نے اپنا ارادہ بدل لیا ہے۔

اياز احمد حال ہی میں ووہان سے موسمِ سرما کی چھٹياں گزارنے پاکستان آئے ہيں۔

وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتايا کہ وہ ووہان يونيورسٹی ميں گزشتہ تين برسوں سے پی ايچ ڈی کی ڈگری کے سلسلے ميں مقيم ہيں۔

انہوں نے بتايا کہ ان کے ہاسٹل سپروائزر نے انہيں اپنا واپسی کا ٹکٹ تاحکم ثانی ملتوی کرنے کو کہا ہے کيونکہ وائرس خطرناک سطح تک پہنچ چکا ہے۔ اُن کے مطابق انہوں نے اپنے والدين کو اس کے بارے ميں نہیں بتايا کيونکہ انہيں خدشہ ہے کہ اگر چين ميں حالات ٹھيک بھی ہو جائيں تو وہ انہيں واپس نہیں جانے ديں گے۔

چين ميں پاکستانی سفير نغمانہ ہاشمی نے پاکستانی شہريوں پر زور ديا ہے کہ وہ اپنی تفصيلات پاکستانی سفارت خانے کی ويب سائٹ پر رجسٹرڈ کرائیں اور چينی حکام سے بھرپور تعاون کريں۔

نغمانہ ہاشمی نے ايک ويڈيو پيغام ميں مزيد بتايا کہ چينی حکام نے اعلان کيا ہے کہ جن غیر ملکی شہریوں کے ويزا کی ميعاد 23 جنوری کو ختم ہو رہی ہے، انہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ حکام کسی معاوضے کے بغیر ويزا کی مدت بڑھا رہے ہیں۔

نغمانہ ہاشمی کے بقول، پاکستانی حکام بھی تمام صورتِ حال کو اچھی طرح مانيٹر کر رہے ہيں تاکہ کسی بھی پاکستانی شہری کو مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔