جنوری میں کيف الورہ عين اسی مارکيٹ ميں اپنی ايک دوست کی سالگرہ کے لیے کچھ سامان خريدنے گئیں۔ جسے کرونا وائرس کا مرکز قرار دیا جاتا ہے۔ ان کی نظروں کے سامنے ایک شخص منہ کے بل گرا اور اچانک ایمرجنسی لگ گئی۔
وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے کيف الورہ نے بتايا کہ انہيں کچھ سمجھ ميں نہیں آيا کہ ہو کيا رہا ہے۔ ہر طرف افراتفری تھی۔ اگلے پانج دن ہر روز وہ شائننگ مارکيٹ جاتيں کيونکہ کيک اور ڈيکوريشن کی سب سے مشہور دکانيں اسی 'سی فوڈ مارکيٹ' کے گيٹ کے سامنے تھيں ليکن پوری مارکيٹ کو بند پايا۔
مارکيٹ کی انتظاميہ سے انہوں نے معلوم کيا تو کچھ لوگوں نے وائرس کے بارے ميں بتايا ليکن اس کو اتنا سنجيدہ نہيں ليا۔ ليکن جب 15 جنوری کو وہ بازار سے واپس اپنے کمرے ميں ائيں تو ہر طرف سے لاک ڈاون کے پيغامات موصول ہونا شروع ہو گئے۔
کيف الورہ کے مطابق انکی اس ضمن ميں کوئی تياری نہيں تھی اور کھانے پينے کی اشيا بھی نہيں تھيں۔ يہ سب کچھ اچانک ہوا تھا۔ اُس وقت اُن کی پریشانی میں اضافہ ہوا۔
پاکستان ميں صوبہ سندھ کے ضلع بدين سے تعلق رکھنے والی 22 سالہ کيف الورہ 2017 میں چین آئیں۔ وہ ہوبے يونيورسٹی آف سائنس اينڈ ٹيکنالوجی میں ایم بی بی ایم کی سال چہارم کی طالبہ ہیں۔
اُن کے بقول یکے بعد دیگرے بھارت، انڈونیشیا اور دیگر ملکوں نے اپنے طلبہ کا انخلا شروع کر دیا۔ لیکن پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے ایسا کوئی قدم نہیں اُٹھایا گیا۔
کيف الورہ نے مزيد بتايا کہ حکومت کے اس اقدام سے وہ مزيد پریشانی کا شکار ہوئيں اور کچھ طلبہ تو پاکستان کی حکومت کے رویے پر روتے بھی رہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ انہيں خوراک سے ليکر دوائيوں تک ہر قسم کے مسائل تھے بلکہ وہ پانی بھی نلکے کا پيتی تھيں۔ چند دنوں بعد آن لائن ایپ کے ذریعے کھانا آرڈرز کرنا شروع کیا۔ لیکن اس میں بھی حلال اور حرام کا فرق کرنے میں مسائل درپیش تھے۔
کيف الورہ کہتی ہیں کہ پڑھائی کی مصروفیات کے باعث اُن کا پاکستانی کمیونٹی سے رابطہ کم تھا۔ لیکن اس لاک ڈاؤن کے دوران ان کا رابطہ وہاں موجود دیگر پاکستانیوں سے ہوا، جو کم و بیش ایسے ہی مسائل سے دوچار تھے۔
چین میں وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد میں بتدریج کمی کے بعد چينی صوبے ہوبے ميں حکام نے قرنطينہ ميں نرمی کرنے کا فيصلہ کيا ہے۔ حکام نے اعلان کیا ہے کہ ہوبے اور ووہان کے رہائشی آٹھ اپریل سے دوسرے شہروں کا سفر کر سکیں گے۔
کيف الورہ چينی حکام کے اس اقدام کو خوش آئند قرار ديتی ہيں۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلے ہم یہاں سے نکلنا چاہتے تھے۔ لیکن اب وہ یہاں رہنے کو ترجیح دے رہی ہیں۔
SEE ALSO: ْوہ دن بہت وحشت ناک تھے، اپنے کمرے سے بھی خوف آتا تھا'ليکن پاکستان ميں شمالی وزيرستان کے دتہ خيل کے علاقے سے تعلق رکھنے والے ساجد رؤف اب بھی پاکستان واپس آنا چاہتے ہیں۔ ساجد رؤف ہوبے یونیورسٹی سے فزکس میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔
وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتايا کہ انکے ساتھ انکی اہليہ بھی اسی مضمون ميں پی ايچ ڈی کر رہی ہيں۔ وہ حاملہ ہیں لہذٰا وہ اُنہیں پاکستان بھیجنا چاہتے ہیں۔
دو ماہ قرنطینہ میں رہنے کے وقت کو ياد کرتے ہوئے ساجد نے بتايا کہ يہ اُن کی زندگی کا سب سے مشکل وقت تھا۔ کیوں کہ اُن کی اہلیہ کی طبعیت خراب رہتی تھی اور وہ ہر وقت روتی رہتی تھیں۔ وہ چاہتے ہوئے بھی اُنہیں اسپتال نہیں لیجا سکتے تھے۔ اسپتال کرونا وائرس کے مریضوں سے بھرے ہوئے تھے۔
ساجد رؤف کے مطابق انہوں نے يہاں ايسے بھی کيسز ديکھے ہيں کہ بچہ پیدائشی طور پر ہی کرونا وائرس میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ لہذٰا اُن کی کوشش ہے کہ وہ اپنی اہلیہ کو پاکستان بھیج دیں تاکہ زچہ و بچہ کی زندگی محفوظ ہو۔
پاکستان میں کیسز بڑھنے کے باوجود ساجد رؤف خوفزدہ نہیں ہیں۔ اُن کے بقول چین میں تازہ پھل اور دودھ دستیاب نہیں ہے جب کہ پاکستان میں یہ اشیا با آسانی دستیاب ہیں۔
ساجد رؤف کے مطابق اگرچہ حالات اب قدرے بہتر ہو رہے ہيں تاہم وہ نہيں سمجھتے کہ انکے علاقے ميں فوری طور پر نرمی کر دی جائے گی کيونکہ وہ ووہان شہر کے بلکل وسط ميں رہائش پذیر ہيں۔