پاکستان اور امریکہ کے تعلقات یوں تو سات دہائیوں پر محیط ہیں تاہم اس میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت سے اُتار چڑھاؤ بھی آتے رہے ہیں۔ گو کہ نئے صدر جو بائیڈن کے اقتدار میں آنے کے بعد تجزیہ کار پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں بہتری کے امکانات ظاہر کر رہے ہیں۔ لیکن ٹرمپ دور سے قبل ڈیمو کریٹک پارٹی کے آٹھ سالہ دور میں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں تناؤ دیکھا گیا تھا۔
پاکستان اور امریکہ کے سات دہائیوں پر مشتمل تعلقات کے دوران پاکستان، امریکہ کا حلیف بھی رہا۔ نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی بھی رہا۔ لیکن اس دوران دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کا فقدان بھی رہا۔ یوں مجموعی طور پر دونوں ملکوں کے تعلقات پیچیدہ ہی رہے ہیں۔
ٹرمپ دور سے قبل جو بائیڈن اس وقت کے صدر اوباما کے ساتھ بطور نائب صدر بھی کام کر چکے ہیں۔ اس دوران وہ پاکستان کا دورہ بھی کر چکے ہیں۔
سیاسی تجزیہ کار اور سفارت کار اوباما دور کو تلخ واقعات اور دونوں ممالک کے لیے سود مند پالیسیوں کے امتزاج کے طور پر یاد کرتے ہیں۔
تو آخر سابق صدر اباما دور میں ایسا کیا ہوا جو اسے ٹرمپ دور سے مختلف بناتا ہے؟ امریکہ میں پاکستان کے سابق سفارت کار اعزاز چوہدری نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اوباما دور میں بہت سے ایسے فیصلے ہوئے جن کا اثر جنوبی ایشیا خاص طور پر افغانستان اور پاکستان پر براہ راست پڑا۔
انہوں نے اوباما دور میں ان چھ ورکنگ گروپس اور اسٹرٹیجک گروپس کا ذکر بھی کیا جو پاکستان کے ساتھ بہت سے اہم معاملات پر مل کر کام کرنے کے لیے بنائے گیے تھے جن کا اثر یقیناً مثبت تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
البتہ ان کا کہنا تھا کہ حالات میں بگاڑ اس وقت آنا شروع ہوا جب اس وقت کی ڈیموکریٹک انتظامیہ نے پاک امریکہ تعلقات کو افغانستان میں معاملات کے اُتار چڑھاؤ کی عینک سے دیکھنا شروع کیا۔
اس بات سے سینئر تجزیہ کار ڈاکٹر رفعت حسین بھی متفق نظر آتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ 2009 کے بعد امریکی حکومت کے لیے افغانستان کے معاملات اتنی اہمیت اختیار کر چکے تھے کہ پاک امریکہ تعلقات کے تمام پہلو دب کر رہ گیے جس سے بعد میں تعلقات کشیدہ ہوئے۔
افغانستان کے حالات کے پاک امریکہ تعلقات پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں اعزاز چوہدری کا کہنا تھا کہ "2011 میں افغانستان میں امن و امان کی بگڑتی صورتِ حال اور جنگ میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہونے کا ملبہ بھی امریکی انتظامہ کی جانب سے پاکستان پر ڈالا جاتا رہا جس کے بعد تعلقات میں مزید تناؤ آیا۔"
سنیئر صحافی اور تجزیہ کار زاہد حسین نے اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ امریکہ کی افغانستان، پاکستان پالیسی کامیاب ثابت نہیں ہو سکی جس کی وجہ اس خطے کے باقی معاملات کو پسِ پشت ڈال کر صرف افغانستان کو اہمیت دینا تھا۔
دو مئی 2011 کو ایبٹ آباد میں امریکی فوجی آپریشن میں اُسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد بھی پاکستان اور امریکہ کے تعلقات مزید خراب ہو گئے۔
اس واقعے کے بعد جہاں پاکستان پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بن گیا تو وہیں ڈاکٹر رفعت حسین کے بقول یہ بحث بھی گرم ہو گئی کہ آیا پاکستان کی ریاست اس تمام آپریشن سے آگاہ تھی یا نہیں؟
اگرچہ اس پر پاکستان کے اندر بھی مختلف آرا پائی جاتی ہیں لیکن اس واقعے نے پاک، امریکہ تعلقات میں پائی جانے والی بداعتمادی کو مزید بڑھا دیا۔
اگر یہ کہا جائے کہ سال 2011 پاک امریکہ تعلقات کے تناظر میں ایک برا سال تھا تو یہ غلط نہیں ہو گا۔ 26 نومبر 2011 میں پاکستان کے افغانستان سے جڑے سرحدی علاقے سلالہ چیک پوسٹ پر نیٹو فورسز کی کارروائی میں یہاں تعینات 28 پاکستانی فوجی ہلاک ہو گئے جس پر پاکستان نے امریکہ سے شدید احتجاج کیا۔
ڈاکٹر رفعت حسین کہتے ہیں کہ سلالہ واقعے پر پاکستان کے اندر ردِعمل شدید تھا۔ جس کے نتیجے میں پاکستان کے راستے افغانستان جانے والی نیٹو سپلائی بھی روک دی گئی۔
زاہد حسین کے مطابق سلالہ ان واقعات میں سے تھا جن سے پیدا ہونے والی تلخی کے اثرات دور رس تھے۔ بند کی جانے والی نیٹو سپلائی جولائی 2012 میں امریکہ کی جانب سے سرکاری طور پر واقعے کے نتیجے میں ہونے والے جانوں کے زیاں پر افسوس اور غلطی کے اعتراف کے بعد بحال ہو سکی تھی۔
ڈاکٹر رفعت حسین کہتے ہیں کہ ان واقعات کو دیکھتے ہوئے یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ تعلقات کشیدہ ضرور تھے لیکن ایسا بھی نہیں کہ ان میں بہتری کا کوئی بھی پہلو نہیں تھا۔
'کیری لوگر بل' کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس قانون کے تحت پاکستان کو 2010 سے 2014 کے درمیان 5-1 بلین (ایک اعشاریہ پانچ بلین ڈالرز) ادا کیے گے جو کہ سول امداد میں آنے والی ایک بڑی رقم تھی۔
البتہ اعزاز چوہدری کا کہنا ہے کہ کسی حد تک تو یہ بات درست ہے کہ کیری لوگر بل ایک مثبت قدم تھا لیکن سفارتی سطح پر کیے جانے والے اقدامات کا ایک پس منظر ہوتا ہے۔
ان کے بقول اس امداد کے بعد امریکی حکومت کو پاکستان سے جس نوعیت کے تعاون کی امید تھی جب وہ حاصل نہیں ہوا تو مایوسی بڑھنے لگی۔
موجود ڈیمو کریٹک حکومت کس حد تک نئی پالیسیاں متعارف کرائے گی اس بارے میں ڈاکٹر رفعت کہتے ہیں کہ صدر بائیڈن گزشتہ ڈیمو کریٹک دور میں نائب صدر تھے اس کا ان کی موجودہ پالیسیوں پر کوئی اثر نہیں ہو گا۔ اس کی وجہ امریکہ کے اندرونی اور بیرونی حالات میں تبدیلی ہے۔
اعزاز چوہدری کہتے ہیں کہ نئی امریکی انتظامیہ روایتی طور پر ماضی کی انتظامیہ کی کئی پالیسیوں کو آگے بڑھاتی ہے۔ تاہم اُن کے بقول ٹرمپ انتظامیہ کی کئی پالیسیاں ایسی تھیں جس پر امریکی سیاست دانوں اور تھنک ٹینکس کے تحفظات تھے۔
اعزاز چوہدری کا کہنا تھا کہ کرونا وبا، معاشی بحران اور بڑھتے ہوئے سیاسی اختلافات کے تناظر میں بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے کی گئی تبدیلیوں کو دیکھا جائے تو ممکن ہے کہ خارجہ پالیسی کو بھی ازسرنو تشکیل دیا جائے۔
ڈاکٹر رفعت کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت اس لحاظ سے بھی مختلف ہے کہ اس میں متفرق نسلی پس منظر سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔ ایسے میں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ ڈیمو کریٹک حکومتوں کا عمومی زور دیگر ممالک میں جمہوری حکومتوں کے فروغ اور انسانی حقوق کے حوالے سے آواز اٹھانے پر بھی ہوتا ہے۔
ڈاکٹر رفعت کا کہنا ہے کہ کشمیر کی وجہ سے پاک بھارت تعلقات میں پیدا ہونے والا تناؤ کم ہونے کے امکانات بھی ہیں جو کہ صدر ٹرمپ کے دور میں ممکن نہیں ہو سکا تھا۔
البتہ ایک واضح فرق یہ ہے کہ اوباما دور میں مزید فوجیں افغانستان آ رہی تھیں جب کہ اب انخلا کا دور ہے۔
زاہد حسین کہتے ہیں کہ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ افغانستان کے بدلتے حالات اب بھی کسی نہ کسی طور پاک امریکہ تعلقات پر محدود اثر ضرور مرتب کریں گے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق نئی امریکی حکومت کو کئی داخلی چیلنجز کا سامنا ہے۔ البتہ وہ یہ ضرور کہتے ہیں کہ ماضی کی ڈیمو کریٹک حکومت جن حالات میں حکومت کر رہی تھی وہ آج سے یکسر مختلف تھے. اس لیے امید یہی کی جاتی ہے کہ اس زمانے کی غلطیوں کو پاکستان اور امریکہ، دونوں ممالک میں سے کوئی بھی دوہرانا پسند نہیں کرے گا۔