امریکی کانگرس نے پیر کو پاکستان میں جمہوریت کے استحکام اور خواتین کے حقوق کے فروغ کے لیے دو کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی امداد کی منظوری دی ہے۔ یہ امداد امریکی کانگرس کی طرف منظور کردہ فنڈنگ کے اس بل کا حصہ ہے جس میں 900 ارب ڈالر کا کرونا وائرس سے متعلق امدادی پیکیج اور 1400 ارب ڈالر کے سالانہ امریکہ کے حکومتی مصارف کے لیے فنڈنگ بھی شامل ہے۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکی کانگرس میں پاکستان کے لیے منظور کی جانے والے یہ امداد امریکہ کی طرف سے پاکستان کے سول پروگرام کی مدد سے متعلق امداد کی بحالی کا اشارہ ہے جو صدر ٹرمپ نے جنوری 2018 میں سیکیورٹی امداد کے ساتھ یہ کہتے ہوئے معطل کر دی تھی کہ پاکستان انسداد دہشت گردی کی جنگ میں تعاون نہیں کر رہا۔
امریکی ایوانِ نمائندگان اور سینیٹ نے پیر کو یہ بل منظور کیا تھا، جس کے بعد توقع کی جاری رہھی تھی کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس پر دستخط کر دیں گے۔ لیکن اب صدر کا کہنا ہے کہ وہ کانگرس سے اس بل میں سے غیر ضروری چیزیں نکال کر اسے دوبارہ بھیجنے کے لیے کہیں گے۔
اگرچہ بعض امریکہ حلقوں نے پاکستان کے لیے امداد کو کانگرس کی طرف سے فنڈنگ کے اس بل میں شامل کرنے پر اعتراض کیا ہے، جس میں کرونا وائرس کے لیے امدادی پیکیج کی بھی منظوری دی گئی ہے۔ لیکن رپبلکن سینٹر لنڈسے گراہم نے اس اقدام کا وفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ امداد پاکستان میں خواتین کے حالات کو بہتر بنانے کے لیے اہم ہے۔
سینٹر لنڈسے گراہم نے فاکس نیوز میں ایک پروگرام میں کہ کہ پاکستا ن کے بارے میں مجھے واقعی فکر ہے ۔ 85 فیصد ممالک ایسے ہیں جہاں خواتین اپنے شوہر کے دستخطوں کے بغیر اپنا بینک اکاؤنٹ نہیں کھول سکتیں۔ وہ جائیداد کی وارث نہیں بن سکتیں۔ اگر پاکستان میں کوئی خاتون جوان ہے تو اس کے لیے زندگی مشکل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم دنیا بھر میں خواتین کی زندگیاں بہتر بنانا چاہتے ہیں۔
پاکستان میں جمہوریت اور خواتین کے حقوق کے فروغ کے لیے امریکی کانگریس سے منطور کی جانے والی امداد کو مبصرین ایک مثبت پیش رفت قرار دے رہے۔ جب کہ امریکہ نے پاکستان کو سیکیورٹی مد میں دی جانے والے امداد کی معطلی کے بعد سے امریکہ کے ساتھ دفاعی شعبوں میں باہمی تعاون بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔
اسلام آباد کے انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز سے منسلک بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار نجم رفیق نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکی کانگرس سے پاکستان کے لیے امداد کی منظوری ایک خوش آئند اقدم ہے۔
نجم رفیق کہتے ہیں کہ یہ امر اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری لانا چاہتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مستقبل میں آنے والی بائیڈن انتظامیہ کو اسلام آباد اور واشنگٹن کے تعلقات کو بہتر بنانے پر توجہ دینی ہو گی۔
پاکستان میں حزب اختلاف کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر اور امریکہ میں پاکستان کی سابق سفیر شیری رحمن کا کہنا ہے کہ امریکی کانگرس سے پاکستان کے لیے امداد کی منظوری اس بات کی عکاسی ہے کہ مستقبل میں امریکہ کی جانب سے پاکستان کو ملنے والی سول امداد بحال ہو سکتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے شیری رحمن نے کہا کہ اس اقدام سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ میں مختلف کثیر الجہتی پروگرام بشمول یو ایس ایڈ آہستہ آہستہ بحال ہو سکتے ہیں
ان کا کہنا تھا کہ کانگریس کا منظور کردہ 2 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کا امدادی پیکیج زیادہ بڑا نہیں ہے، اور اس کا ماضی میں امریکہ کی جانب سے پاکستان کو ملنے والی امداد سے موازنہیں کیا جا سکتا کیونکہ 2001 سے سے 2013 تک امریکہ نے پاکستان کو لگ بھگ 25 ارب ڈالر کی سول اور سیکیورٹی امداد فراہم کی تھی۔
تاہم تجزیہ کار نجم رفیق کہتے ہیں کہ پاکستان کے لیے امریکی امداد کی منظوری ایک خوش آئند اقدم ہے جس سے پاک امریکہ تعلقات کو بہتر بنانے میں مدد ملی سکتی ہے۔ اور اس طرح کے اقدام سے دو طرفہ تعلقات میں موجود سرد مہری میں کمی لائی جا سکتی ہے۔
لیکن سینیٹر شیری رحمن اس سے اتفاق نہیں کرتیں۔ وہ کہتی ہیں کہ مختلف شعبوں میں تعاون کو فروغ دے کر ہی اسلام آباد اور واشنگٹن کے تعلقات میں توازن لانے کی کوشش اور باہمی تعلقات میں غیر یقنیی کی کیفت کو ختم کرنے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات 2018 کے اوائل مین اس وقت سرد مہری کا شکار ہو گئے تھے جب صدر ٹرمپ نے پاکستان کی امداد یہ کہتے ہوئے معطل کر دی تھی کہ پاکستان انسداد دہشت گری کی جنگ میں تعاون نہیں کر رہا۔ جب کہ پاکستان کا یہ موقف رہا ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دران پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جانی و مالی قرنیاں دی ہیں جس کا اعتراف بین الاقوامی سطح پر بھی کیا جاتا ہے۔ تاہم بعد ازاں افغان امن عمل میں پاکستان کے اہم کردار کی وجہ سے اسلام آباد اور واشنگٹن کے تعلقات میں مثبت پیش رفت دیکھی جا رہی ہے۔