ُپاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ان کا ملک اپنے تمام تر وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئےاپنے لوگوں کو تباہ کن سیلاب کے مصائب سے نکالنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن ساتھ ہی انہوں نے دنیا کو خبر دار کیا کہ آب و ہوا میں تبدیلی پر اقداما ت کے متعلق باتیں کرنے کا وقت گزر گیا ہے کیونکہ اس کے اثرات صرف کسی ایک جگہ تک محدود نہیں رہیں گے۔ وزیراعظم نے عالمی فورم پر افغانستان کے اثاثوں کے اجرا اور پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر تنازعے سمیت عالمی تنازعات کے حل پر بھی زور دیا۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 77ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے عالمی رہنماوں کو بتایا کہ چالیس روز کی بارشوں کے سبب آنے والے سیلاب نے صدیوں کے ریکارڈ توڑ ڈالے اور ان کے ملک کے بڑے حصے کو بری طرح متاثر کیا۔
انہوں نے کہا: " آج بھی ملک کا بڑا حصہ زیر آب ہے اور انسانی مصائب کے سمندر میں ڈوبا ہوا ہے"۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا حوالہ دیتے ہوئے شہباز شریف نے نشاندہی کی کہ پاکستان آب و ہوا کے خطرے سے سب سے زیادہ دوچار ملکوں کی فہرست میں آتا ہے حالانکہ ملک ان زہریلی گیسوں کا ایک فیصد سے بھی کم اخراج کا ذمہ دار ہے جو زمین کو سخت نقصان پہنچا رہی ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے خبر دار کیا کہ "جو پاکستان میں ہوا وہ پاکستان میں نہیں رہے گا"۔
’’پاکستان میں زندگی ہمیشہ کے لیے تبدیل ہو گئی ہے، موسمیاتی تغیر کا اتنا بڑا اثر کہیں اور نہیں دیکھا گیا، گلوبل وارمنگ کے اسباب میں پاکستان کا کچھ حصہ نہیں، ہمارے گلیشئرز پگھل رہے ہیں، اور تباہ کن مون سون کا سامنا ہے۔‘‘
سیلاب کی تباہ کاریوں کی طرف دنیا کی توجہ مبذول کراتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ خواتین اور بچوں سمیت 33 ملین افراد کو اب صحت کے خطرات کا سامنا اور ساڑھے چھ لاکھ حاملہ خواتین عارضی خیموں میں بچوں کو جنم دے رہی ہیں۔
شہباز شریف نے کہا کہ 1500 سے زیادہ پاکستانی سیلاب میں ہلاک ہو چکے ہیں جن میں 400 سے زیادہ بچے بھی شامل ہیں۔ بہت سے لوگوں کو بیماری اور غذائی قلت جیسے خطرات نے آلیا ہے۔
وزیر اعظم نے سیلاب کی تباہ کاریا ں بیان کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے گلوبل وارمنگ کے اثرات کی اس سے بڑی اور تباہ کن مثال کبھی نہیں دیکھی۔
SEE ALSO: شہباز شریف کی صدر بائیڈن سے ملاقات تعمیری رہی، حنا ربانی کھر
متاثرہ علاقوں کے اپنے دوروں کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں لوگ پوچھتے ہیں کہ ان کے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟ جب گلوبل وارمنگ اس شدید رفتار سے پورے خاندانوں اور پورے ملک کو نقصان پہنچاتی ہے تو یہ پوچھنے کا وقت نہیں کہ کیا کیا جا سکتا ہے بلکہ کیا کرنا چاہیے۔
وزیراعظم نے بتایا کہ ابتدائی تخمینوں کے مطابق 13 ہزار کلومیٹر سے زیادہ سڑکوں کو نقصان پہنچا ہے، 370 سے زیادہ پل بہہ گئے ہیں، دس لاکھ گھر تباہ ہو چکے ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ دس لاکھ سے زیادہ جانور ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ چالیس لاکھ ایکڑ پر اگائی گئی فصلیں بہہ گئی ہیں۔
بین الاقوامی برادری سے تعاون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا اس نقصان کے پورا کرنے کے لیے انصاف کی توقع رکھنا پوری طرح سے معقول ہے۔ تاہم انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ دنیا یوکرین کی جنگ کے سبب پاکستان کے حالات سے بے خبر نہ ہو جائے۔
’’ مجھے فکر ہے کہ جب کیمرہ ہٹ جائے گا تو توجہ یوکرین پر رہ جائے گی ۔ میرا سوال ہے کہ کیا ہم اکیلے رہ جائیں گے اور اس بحران کا اکیلے سامنا کریں گے جو ہم نے پیدا نہیں کیا؟‘‘
وزیر اعظم نے افغانستان ، کشمیر اور انسداد دہشت گردی سمیت جنوبی ایشیا کو درپیش چلینجز پر پاکستان کی پالیسی کا بھی اپنی تقریر میں احاطہ کیا۔
بھارت کے ساتھ کشمیر کے تنازعے پر وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ جموں اور کشمیر کے مسئلے کا حل نہ ہونا جنوبی ایشیا کے اندر امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ بھارت نے جموں و کشمیر میں نو لاکھ فوج تعینات کر رکھی ہے جو ان کے بقول دنیا میں کسی بھی علاقے میں تعنیات فوج کی سب سے بڑی تعداد ہے۔
شہباز شریف نے کہا کہ بھارت جعلی ڈومیسائل اور سرٹیفیکیٹس، جعلی ووٹوں کے ذریعے کشمیر کی ڈیموگرافی تبدیل کر رہا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
بھارت کی طرف سے فوری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا مگر عام طور پر بھارت پاکستان کی طرف سے جو موقف اقوام متحدہ میں اختیار کیا جاتا ہے، اس کا جواب اسی عالمی فورم پر اپنی تقریر کے دوران دیتا ہے۔ بھارت کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے اور پاکستان پر الزام عائد کرتا ہے کہ وہ عسکریت پسندوں کی معاونت کر رہا ہے۔
شہباز شریف نے کہا پاکستان پورے جنوبی ایشیا میں امن کے قیام کے لیے پرعزم ہے، بھارت بھی تعمیری اقدامات کرے۔
’’یہ ہمار انتخاب ہے کہ ہم امن سے رہنا چاہتے ہیں یا جنگ کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ ہم تین جنگیں لڑ چکے اور نتیجہ دونوں طرف لوگوں کی زندگیوں میں تکالیف اور مسائل کی صورت ہی سامنا آیا ہے۔۔۔ بہتر ہے کہ ہم اپنے وسائل عوام کی تعلیم ، صحت اور ان کے معیار زندگی کو بہتر بنانے پر صرف کریں‘‘۔
افغانستان:
پاکستان کے وزیراعظم نے افغانستان کی صورتحال پر بھی دنیا کو اپنے موقف سے آگاہ کیا اور اس بات پر زور دیا کہ ملک کے ساتھ رابطے استوار رکھے جائیں اور افغانستان کے منجمد اثاثے بحال کیے جائیں۔
’’ افغانستان کے تیس ملین (تین کروڑ) لوگ ایک غیر فعال معیشت اور بنکاری نظام میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔افغانستان کے مالی اثاثے جاری کرنا ملک کے بنکنگ سسٹم کے لیے بے حد ضروری ہے‘‘۔
SEE ALSO: نیو یارک میں وزیر اعظم شریف کی اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اور بل گیٹس سے ملاقاتیں، اہم امور پر گفتگو
شہباز شریف نے کہا کہ ان کا ملک، افغانستان کے مردوخواتین کی تعلیم اور حقوق کا حامی ہے لیکن اس وقت افغانستان کو الگ تھلگ کرنا ٹھیک نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ پر امن اور خوشحال افغانستان ہم سب کے مفاد میں ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان کے اندر داعش ہو، تحریک طالبان ہو، القاعدہ، ای ٹی آئی ایم یا آئی ایم یو، ان سب گروپوں کے خلاف افغانستان کے عبوری حکام کے ساتھ مل کر جامع انداز میں نمٹنا چاہیے۔
انہوں نے یوکرین، یمن، شام میں جاری تنازعات کے سفارتی حل پر بھی زور دیا۔
’’امید تاریکیوں کی سب سے بڑی دشمن ہوتی ہے، بہترین وقت ہے کہ ہم سب سوچیں اور اکیسیویں صدی کے چیلنجز پر دھیان دیں اور مشترکہ ایجنڈے پر سوچیں‘‘
اپنی تقریر کے اختتام پر شہباز شریف نے اپنے سکرپٹ سے ہٹ کر، ایک بار پھر بھارت کے ساتھ پائیدار تعلقات کے لیے کشمیر کے مسئلے کے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل پر زور دیا۔