پاکستان کی قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے وسط مدتی انتخابات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ معاشی زبوں حالی کا واحد حل نئے عام انتخابات ہیں اور جمہوریت میں یہ مطالبہ نیا نہیں ہے۔
قومی اسمبلی میں شاہد خاقان عباسی، خواجہ آصف اور دیگر پارٹی رہنماؤں کے ہمراہ صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ معیشت کو جو بیماری لگ گئی ہے اس کا علاج نئے انتخابات ہیں۔
قائد حزب اختلاف کی جانب سے وسط مدتی انتخابات کا مطالبہ حال ہی میں ہونے والی کل جماعتی کانفرنس کے بعد سامنے آیا ہے جس میں حزب مخالف جماعتوں نے حکومت مخالف مشترکہ حکمت عملی اپنانے پر اتفاق کیا تھا۔
انھوں نے کہا کہ اے پی سی میں ہونے والے فیصلے کی روشنی میں مشترکہ اپوزیشن حکومت کو پارلیمینٹ کے اندر اور باہر سخت ردعمل دے گی جس کی ابتدا چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے سے کی جا رہی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں شہباز شریف نے کہا کہ اسمبلیوں سے اجتماعی استعفوں کی تجویز اے پی سی میں مسترد کر دی گئی تھی۔
شہباز شریف نے پارلیمنٹ کی سب سے اہم پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سربراہی سے مستعفی ہونے کا اعلان بھی کیا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ اے پی سی کے فیصلے کے مطابق ان کی جماعت کے اراکین نے انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کے لئے قائم پارلیمانی کمیٹی سے استعفیٰ دے دیا ہے۔
مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنماء سردار اویس خان لغاری کہتے ہیں کہ بیرونی امداد کے باوجود معیشت میں بہتری نہیں آئی نہ روپیہ مستحکم ہو رہا ہے اور نہ ہی سرمایہ کاری آ رہی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ایسے حالات میں نئے انتخابات سے ہی معیشت میں بہتری ا سکتی ہے۔
وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی امور نعیم الحق نے شہباز شریف کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ وسط مدتی انتخاب کا دعویٰ اپوزیشن لیڈر کے ذہنی دیوالیہ پن کا واضح اظہار ہے۔ انھوں نے کہا کہ عام انتخابات میں شکست کے زخم چاٹنے والے کسی نئے انتخاب کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
اپنے بیان میں نعیم الحق کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کی جانب سے پی اے سی کی سربراہی چھوڑنے کا اعلان انتشار پھیلانے کے اسی سلسلے کی کڑی ہے جس کا فیصلہ اپوزیشن جماعتوں نے اے پی سی میں کیا ہے۔
ان کے مطابق حزب مخالف کی دونوں بڑی جماعتوں نے اس عہدے کے لئے ہفتوں پارلیمان کو یرغمال بنائے رکھا۔
تجزیہ کار مبشر زیدی کے مطابق وسط مدتی انتخابات کے معاملے پر اپوزیشن جماعتیں تقسیم ہیں، مسلم لیگ ن اور جمعیت علماء اسلام ف حکومت کو مزید وقت نہیں دینا چاہتی لیکن پیپلز پارٹی اس معاملے میں ان سے دور کھڑی نظر آتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ قائد حزب اختلاف کی جانب سے یہ بیان اہمیت کا حامل ہے تاہم کیا اپوزیشن جماعتیں اس حوالے سے مشترکہ تحریک چلا سکتی ہیں اس کا فیصلہ آنے والے دنوں میں ہی ہو سکے گا۔
قائد حزب اختلاف نے صحافیوں سے بات چیت میں کہا کہ بجٹ میں اپوزیشن کا کوئی مطالبہ نہیں مانا گیا اور تاریخ میں ایسا ظالمانہ بجٹ کبھی سامنے نہیں آیا۔ انھوں نے کہا کہ حکومت نے میثاق معیشت کے تناظر میں عوامی فلاح کے لیے تجویز کیے گئے معاشی اقدامات کو تسلیم نہیں کیا۔