پاکستان کے وزیرِ اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ پاکستان، افغانستان میں امن کا خواہاں ہے۔ لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو اس کے منفی اثرات پاکستان پر ہرگز نہیں پڑنے دیں گے۔
پیر کو اپنی ایک ٹوئٹ میں اُن کا کہنا تھا کہ افغانستان میں بدلتی ہوئی صورتِ حال پر پاکستان کی گہری نظر ہے جب کہ کابل میں ایک پر امن اور اتفاقِ رائے پر مبنی نظامِ حکومت کے ذریعے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
اس سے قبل پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان، وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی اور قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف افغانستان کی صورتِ حال کو تشویش کا باعث قرار دیتے ہوئے پاکستان کی افغان پالیسی واضح کر چکے ہیں۔
پاکستانی حکام کی جانب سے افغانستان کی صورتِ حال اور اس کے پاکستان پر ممکنہ اثرات کے بیانات ایسے موقع پر سامنے آ رہے ہیں جب طالبان اور افغان فورسز کے درمیان لڑائی جاری ہے اور امریکی فوج کا انخلا مکمل ہونے کے قریب ہے۔
ماہرین پاکستان کی بدلتی ہوئی افغان پالیسی پر ملے جلے ردِعمل کا اظہار کر رہے ہیں۔
پاکستانی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان واقعتاً، افغانستان میں امن کا خواہاں اور ایک پائیدار اور مضبوط افغان حکومت کے حق میں ہے۔
البتہ، بعض افغان تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اسلام آباد درپردہ طالبان کی حمایت کر رہا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے پشاور یونیورسٹی کے شعبہ 'ایریا اسٹڈی سینٹر' کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر سرفراز خان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی کوششوں سے ہی طالبان، امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آئے تھے جس کے بعد امریکہ کے فوجی انخلا کی راہ ہموار ہوئی۔
اُن کے بقول پاکستان کبھی نہیں چاہے گا کہ مذاکرات کے جس عمل میں اُس نے تعاون کیا وہ ناکام ہو اور افغانستان ایک بار پھر انتشار کا شکار ہو کیوں کہ اس کا براہ راست اثر پاکستان پر بھی پڑے گا۔
طالبان کا دعوی ہے کہ انہوں نے یکم مئی سے لے کر اب تک ڈیڑھ سو سے زائد اضلاع کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ تاہم افغان حکومت کا کہنا ہے کہ انہوں نے زیادہ تر علاقے حکمتِ عملی کے تحت چھوڑے ہیں۔
ڈاکٹر سرفراز خان کے بقول پاکستان کو موجودہ صورتِ حال میں محتاط رہنے کی ضرورت ہے کیوں کہ سوویت یونین کے ساتھ جنگ کے دوران اور اس کے بعد جس طرح مہاجرین نے پاکستان کا رُخ کیا اب بھی ویسے خدشات موجود ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
'افغانستان میں خانہ جنگی کا اثر پاکستان پر بھی پڑے گا'
اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی سابق سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کی افغانستان سے متعلق پالیسی بہت واضح ہے۔
اُن کے بقول پاکستان چاہتا ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا سیاسی حل نکلے۔ کیوں کہ پڑوسی ملک کی حیثیت سے افغانستان میں خانہ جنگی کے اثر سے پاکستان نہیں بچ سکتا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان نہیں چاہتا کہ کابل کا انتظام طاقت کے بل بوتے پر حاصل کیا جائے بلکہ پاکستان کی یہ خواہش ہے کہ کابل میں تمام دھڑوں کی نمائندگی والی حکومت بنے جو امن کے لیے متحد ہو۔
پاکستان پر طالبان کی حمایت کے الزامات
کابل میں مقیم ایک سینئر صحافی نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ افغانستان میں پاکستان کی موجودہ پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان کے اخبارات اور نیوز چینلز طالبان کی فتوحات کو بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں جس سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ پاکستان، طالبان کی حمایت کر رہا ہے۔
ایک حالیہ واقعے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ بھارت نے قندھار قونصل خانے سے اپنے عملے کی واپسی کی بات کی اور پاکستان کے سرکردہ نیوز چینلز نے وہاں طالبان کے کنٹرول کی خبریں چلانا شروع کر دیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ کابل میں پاکستان اور طالبان کے درمیان مبینہ مفاہمت کی سوچ پائی جاتی ہے اور ایسے واقعات اس سوچ کو مزید دوام بخشتے ہیں۔
ڈاکٹر ملیحہ لودھی کا کہنا تھا کہ پاکستان کی کوشش ضرور ہے کہ ماضی سے سیکھا جائے۔ کیوں کہ اگر افغانستان میں خانہ جنگی طول پکڑتی ہے اور افغانستان کے مسئلے کا سیاسی حل نہیں نکلتا ہے تو پاکستان کے لیے صورتِ حال پر قابو پانا بہت مشکل ہو جائے گا۔
طالبان کے حالیہ دورۂ ماسکو کا حوالہ دیتے ہوئے ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے بتایا کہ روس نے بھی طالبان کی پیش رفت پر اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے۔
دوسری جانب پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کا کہنا ہے کہ پاکستان سمجھتا ہے کہ افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ وہاں کی عوام نے کرنا ہے۔ البتہ ضرورت پڑنے پر پاکستان ہر قسم کی سہولت کاری کے لیے تیار ہے۔
ڈی جی آئی آیس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے حالیہ دنوں نجی نیوز چینل 'اے آر وائی' سے بات کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ گزشتہ دو عشروں سے افغانستان میں طاقت کے ذریعے قیامِ امن کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ تاہم ایسا نہیں ہو سکا اور نہ ہی مستقبل میں طاقت کے ذریعے افغانستان میں امن قائم ہو سکتا ہے۔