رسائی کے لنکس

قومی سلامتی کمیٹی کا بند کمرہ اجلاس: کن امور پر بات ہوئی؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کی قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کا ایک غیر معمولی اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔ اس غیر معمولی اجلاس میں افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے سبب بدلتی علاقائی صورتِ حال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

پاکستان کی قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس جمعرات کی شام پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔ سہ پہر تین بجے سے جاری اس غیر معمولی اجلاس میں افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے سبب بدلتی علاقائی صورتِ حال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

پاکستان کی عسکری قیادت نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی سربراہی میں ملکی پارلیمانی رہنماؤں کو افغانستان کی صورت حال پر بریفنگ دی ہے۔

8 گھنٹے تک جاری رہنے والی اس بند کمرہ بریفنگ پر سیاسی قیادت نے اطمینان کا اظہار کیا ہے۔

قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی مشترکہ صدارت میں منعقدہ قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کے اس غیر معمولی اجلاس میں علاقائی صورتِ حال پر تبادلہ تفصیلی خیال کیا گیا۔

اجلاس کے آغاز پر انٹر سروسز انٹلیجنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے تناظر میں خطے کی مجموعی صورت حال پر بریفنگ دی۔ جب کہ بریفنگ کے بعد پارلیمانی رہنماؤں کی جانب سے اٹھائے جانے والے سوالات کے آرمی چیف نے جواب دیے۔

اجلاس کی زیادہ تر کاروائی افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا اور اس کے سبب بدلتی ہوئی علاقائی صورت حال کے گرد رہی۔

وزارت اطلاعات کے اعلامیے کے مطابق سیاسی و پارلیمانی قیادت نے بریفنگ پر اطمینان کا اظہار کیا اور افغانستان میں امن،ترقی اور خوشحالی کیلیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔

پاکستان کی پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کا اہم اجلاس
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:48 0:00

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اے آر وائی ٹی وی سے گفتگو میں بتایا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں علاقائی صورت حال پر مفصل اور جامع گفتگو کی گئی جب کہ داخلہ سلامتی سے متعلق امور کو زیر بحث لانے کے لئے جلد ایک اور اجلاس بلایا جائے گا۔

اجلاس کو بتایا گیا کہ افغانستان میں خانہ جنگی کی صورت میں لاکھوں مہاجرین کی پاکستان آمد کا خدشہ ہے۔

خیال رہے کہ پاکستان میں پہلے سے 30 لاکھ افغان پناہ گزین آباد ہیں جو 1980 میں سویت یونین کے افغانستان پر حملے کے بعد سے مقیم ہیں۔

اجلاس کو مزید بتایا گیا کہ پاکستان کے ساتھ ملحقہ افغانستان بارڈر پر باڑ لگانے کا کام 90فیصد مکمل کرلیا گیا ہے۔

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ ہفتے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ اگر افغانستان میں خانہ جنگی میں اضافہ ہوا تو پاکستان اپنی سرحد مہاجرین کے لیے نہیں کھولے گا۔

اعلامیے کے مطابق اجلاس کو بریفنگ میں مزید بتایا گیا کہ پاکستان کی سر زمین افغانستان میں جاری تنازع میں استعمال نہیں ہو رہی اور امید ظاہر کی کہ افغانستان کی سرزمین بھی پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔

وفاقی وزارت اطلاعات کے اعلامیے کے مطابق ڈی جی آئی ایس آئی نے کشمیر اور افغانستان کی حالیہ صورت حال، اہم خارجہ امور، داخلی سلامتی سمیت اندرونی چیلنجز اور خطے میں وقوع پذیر تبدیلیوں پر بریفنگ دی۔

بریفنگ میں بتایا گیا کہ پاکستان نے افغان امن عمل میں اخلاص کےساتھ نہایت مثبت اور ذمہ دارانہ کردار ادا کیا، پاکستان کی بھرپور کاوشوں سے افغان دھڑوں اور متحارب گروپوں میں مذاکرات کی راہ ہموار ہوئی۔ پاکستان کی بھرپور کاوشوں سے امریکہ اور طالبان کے درمیان بھی بامعنی مذاکرات شروع ہوئے۔

بریفنگ میں کہا گیا کہ افغانستان میں پائیدار امن و استحکام دراصل جنوبی ایشیا میں استحکام کا باعث بنےگا۔ پاکستان افغانستان میں عوام کی حقیقی نمائندہ حکومت کا ہر سطح پر خیر مقدم کرے گا اور افغان امن کے لیے اپنا ذمہ دارانہ کردار جاری رکھے گا۔

اجلاس میں وقفہ کے دوران قائد حزب اختلاف شہباز شریف کا کہنا تھا کہ قومی سلامتی کے متعلقہ امور پر حکومت و عسکری حکام کی بریفنگ سے وہ مطمئن ہیں اور اس حوالے سے حکمت عملی کے لیے سفارشات بھی پیش کی جارہی ہیں۔

باوثوق ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی نے قومی سلامتی کے اس اہم اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان کی عدم شرکت کا سوال اٹھایا تو حکومت کی جانب سے کہا کہ موقف اپنایا گیا کہ ایوان کے ماحول کو بہتر رکھنے کی غرض سے عمران خان شریک نہیں ہوئے۔

وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا کہ قومی سلامتی کے معاملے پر ملکی سیاسی و عسکری قیادت ایک ساتھ بیٹھی ہے۔

سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں سو سے زائد رہنماؤں کا ایک ساتھ بیٹھنا سیاسی یکجہتی کی مثال ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو خارجہ سطح اور سرحدوں پر درپیش چیلنجز پر گفتگو ہورہی ہے۔

اجلاس میں طوالت کے باعث شرکاء کے لیے کھانے کا وقفہ کیا گیا۔

اس اہم مشاورتی نشست میں چاروں صوبائی وزراء اعلی و عثمان بزدار، مراد علی شاہ، محمود خان اور جام کمال خان شریک ہوئے البتہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر نے اس اجلاس میں شرکت نہیں کی۔

یہ اجلاس حزبِ اختلاف کی قیادت کے مطالبے پر طلب کیا گیا تھا جس میں افغانستان سے اتحادی افواج کے انخلا اور اس کے پاکستان پر اثرات کا جائزہ لیا گیا اور اپوزیشن کی جانب سے حکومت کو سفارشات دیے جانے کا پروگرام تھا۔

اجلاس سے قبل پارلیمنٹ ہاؤس کی جانب جانے والے تمام راستے عام ٹریفک کے لیے بند کر دیے گئے تھے جب کہ پارلیمنٹ کے ضروری اسٹاف کے علاوہ دیگر ملازمین کو گھروں کو بھیج دیا گیا ہے۔ حکام نے صحافیوں کے پارلیمنٹ میں داخلے پر بھی پابندی عائد کر دی تھی۔

حکومتِ پاکستان کو خارجہ پالیسی اور بالخصوص امریکی صدر بائیڈن کی جانب سے نظر انداز کیے جانے پر حزبِ اختلاف کی جانب سے تنقید کا سامنا ہے۔

خیال رہے کہ صدر بائیڈن نے منصب صدارت سنبھالنے کے بعد سے تاحال پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں کیا۔

اس سے قبل گزشتہ برس نومبر میں اسپیکر قومی اسمبلی کی طرف سے قومی سلامتی کمیٹی کا طلب کردہ اجلاس حزبِ اختلاف کی عدم شرکت کے اعلان کے بعد ملتوی کرنا پڑا تھا۔

افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے سبب خانہ جنگی کے خدشے کو دیکھتے ہوئے پاکستان یہ کہہ چکا ہے کہ امریکہ کو ذمہ دارانہ انخلا کرنا چاہیے۔

وزیرِ اعظم عمران خان نے حال ہی میں امریکی نشریاتی ادارے کو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ پاکستان امریکہ کو فضائی اڈے فراہم نہیں کرے گا۔

XS
SM
MD
LG