خیبرپختونخوا میں پولیو وائرس کا ایک اور کیس رپورٹ ہوا ہے جس کے بعد رواں برس رپورٹ ہونے والے پولیو کیسز کی مجموعی تعداد سات ہو گئی ہے۔
حکام نے افغانستان سے ملحقہ قبائلی ضلع شمالی وزیرستان میں ایک کم سن بچی کے پولیو سے متاثر ہونے کی تصدیق کی ہے۔
دنیا بھر میں پولیو سے متاثرہ مریضوں کی تعداد رواں برس آٹھ بتائی جا رہی ہے جن میں سے سات پاکستان جب کہ ایک کیس افغانستان میں رپورٹ ہوا ہے۔
خیبرپختونخوا کے انسدادِ پولیو کے ہنگامی مرکز کے ترجمان ایمل ریاض کے مطابق پولیو سے متاثر ہونے والے مریضوں کا تعلق شمالی وزیرستان سے ہے جن میں چھ میر علی سے ہیں۔ متاثرہ مریضوں میں چار لڑکے اور تین لڑکیاں ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ایمل ریاض کا کہنا تھا کہ نئے پولیو کیسز اپریل میں ہی سامنے آنا شروع ہو گئے تھے۔
اُن کے بقول نئے کیسز کے پیشِ نظر چھ مئی سے شمالی وزیرستان اور ملحقہ ضلع بنوں میں انسدادِ پولیو کی خصوصی مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ایمل ریاض کہتے ہیں 2021 میں خیبرپختونخوا میں پولیو کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا تھا، تاہم 2020 کے دوران ملک بھر میں پولیو کے 22 کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔
پولیو قطرے پلوانے سے انکاری والدین کیسز میں اضافے کی وجہ؟
خیبرپختونخوا میں انسدادِ پولیو مہم کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ صوبے میں پولیو کے نئے کیسز کی وجہ ایسے والدین ہیں جو مختلف حیلوں بہانوں سے بچوں کو ویکسین کے قطرے پلوانے سے انکار کرتے ہیں۔
ایمل ریاض کے مطابق پہلے ایسے والدین کی تعداد زیادہ تھی، تاہم اب ان میں بتدریج کمی آ رہی ہے۔
اُن کے بقول رواں برس مارچ میں صرف شمالی وزیرستان کے 17 خاندانوں نے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کی ویکسین کے قطرے پلانے سے انکار کیا تھا۔ لیکن مئی میں اس تعداد میں حیران کن اضافہ دیکھنے میں آیا اور 1363 خاندانوں نے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے سے انکار کیا۔
ایمل ریاض کہتے ہیں کہ خصوصی پولیو مہم کے دوران پولیو قطرے پلوانے سے انکار کرنے والے والدین پر توجہ دی جائے گی جس کے لیے بلدیاتی نمائندوں اور علمائے کرام کی خدمات بھی حاصل کی جائیں گی۔
مبینہ عسکریت پسندوں کی دھمکی
خیبرپختونخوا میں انسدادِ پولیو مہم کے دوران امن و امان کا مسئلہ بھی سامنے آتا رہا ہے۔ حالیہ برسوں میں پولیو ٹیموں پر حملوں میں درجنوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے صوبے میں انسدادِ پولیو مہم میں تعطل آتا رہا ہے۔
اطلاعات کے مطابق مبینہ عسکریت پسندوں نے ایک بار پھر پولیو ٹیموں میں شامل اہل کاروں اور رضا کاروں کو دھمکیاں دینا شروع کر دی ہیں اور شمالی وزرستان میں دھمکی آمیز پمفلٹس بھی پھینکے گئے ہیں۔
کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے رابطے پر اس پمفلٹ سے لا تعلقی کا اظہار کیا ہے جب کہ رابطے پر شمالی وزیرستان کے ڈپٹی کمشنر شاہد علی خان نے اس پمفلٹ کو جعلی قرار دیا ہے۔
شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر صحافی حاجی مجتبی نے کہا کہ اس قسم کے دھمکی آمیز پمفلٹ یا خطوط عام لوگوں میں خوف و ہراس کا باعث بنتے ہیں کیونکہ پچھلی دو دہائیوں سے اس علاقے میں دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے واقعات تواتر سے ہوتے رہے ہیں۔
عوامی سماجی مسائل کی بنیاد پر انسدادِ پولیو کی مخالفت
خیبر پختونخوا کے طول و عرض میں عوامی اور سماجی مسائل بالخصوص بجلی کی طویل دورانیے کی لوڈشیڈنگ اور ترقیاتی منصوبوں پر عمل در آمد نہ ہونے کی وجہ سے لوگ انسدادِ پولیو مہم کی مخالفت کرتے رہتے ہیں۔
یہ مخالفت حکام کے بقول خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع کے علاوہ پشاورسے ملحقہ قبائلی ضلع خیبر میں بہت زیادہ دکھائی دیتی ہے۔
وفاقی حکومت کی پریشانی
خیبر پختونخوا میں رواں برس پولیو سے متاثرہ مریضوں کی تصدیق نے وفاقی حکومت کے محکمۂ صحت کے حکام کو پریشان کر دیا ہے۔ وفاقی سیکریٹری صحت عامر اشرف نے چند روز قبل انسدادِ پولیو مہم کے بارے میں ایک تقریب سے خطاب میں کہا ہے کہ " کیس رپورٹ ہونا بچوں کے لیے باعث تشویش ہے۔
سال 2021 کی آخری سہ ماہی میں جنوبی خیبر پختونخوا سے ماحولیاتی نمونوں میں وائرس کے رپورٹ ہونے کے بعد پروگرام نے ان علاقوں کو پولیو وائرس کے لیے حساس قرار دیا تھا۔
صوبے میں پولیو وائرس کا ایک اور کیس سامنے آنے پر وائس آف امریکہ نے خیبرپختونخوا کے معاونِ خصوصی برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف سے رابطہ کیا تو اُن کا کہنا تھا کہ وہ کالعدم تحریکِ طالبان (ٹی ٹی پی) سے مذاکرات کے لیے افغانستان میں ہیں۔